کتنی تھکن ہے ، کیسی تھکن ہے
عجب تھکن ہے،غضب تھکن ہے
کیا یہ میری روح کی تھکن ہے
یا پھر میرے چُوربدن کی
انتظار کی بھی ویسے ہوسکتی ہے
اور امید بھی ہوسکتی ہے
شاید ملن سمے کی تھکن ہے
پروہ ملنا ملناکب تھا
آخر ہم نے ملنا کب ہے
جگراتوں کا رین بسیرا
آنکھ میں کھبتی ٹوٹی کر چیں
کیا یہ اس چُبھن کی تھکن ہے؟
کب تک تنہائی کے پتھر لب چُو میں
اسے گودلٹائیں
مڑکردیکھیں اور پھر خود پتھربن جائیں
کیا یہ تنہائی کی تھکن ہے
کچھ بھی ہو پر اب خود کو
ہم نے یہ سمجھنا ہے
بس چلتے ہی جانا ہے
منزل دور ٹھکانہ ہے
تھکنا نہ تھکانا ہے
دور ہے دھرتی ، دور گگن ہے
اف اللہ یہ کیسی تھکن ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے