وہ چھوٹا سا معصوم جانور
سڑک کے کنارے کھڑا
اور میں ابو کی انگلی کو تھامے ہوئے آرہا تھا
اسے دیکھتا جارہا تھا
اٹھا کر اسے اپنے گھر لانا چاہتا تھا پر
مِرا فیل کارڈ میرے ابو کے ہاتھوں میں تھا
اور چہرے پہ غصے سے ابھرے ہوئے سب نشاں تھے
وہ چھوٹا سا معصوم جانور
سڑک کے کنارے کھڑا
اسے میں نے خود میں کہیں رکھ لیا تھا چھپا کر
اسے خود میں پالا تھا میں نے
وہ چھوٹا سا معصوم جانور
اب درندہ ہے
اور قد میں مجھ سے بڑا ہے
اس کے چہرے پہ غصے کی لاکھوں ہیں شکنیں
بہت باولا ہے
میں بے خواب ہوں
خوف سے کانپتا ہوں
کہ مجھ سے نکل کر
مجھے کھا نہ جائے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے