( مضمون نگار نے کوئی حل، متبادل پیش نہیں کیا۔ شاید وہ اِس سے ایک بحث شروع کرانا چاہتے ہیں۔ دانشوروں اور اہلِ فکر سے اس بحث کو آگے بڑھانے کی توقع ہے ۔ ۔ایڈیٹر)
کیازمانہ تھا دن میں ایک مقررہ وقت میں اہل علم و دانش ، سیاست دان ، تاجر کسی ہوٹل میں یا بیٹھک کے لیے مخصوص جگہ پر بیٹھنے کے لیے وقت نکالتے۔ ایک دوسرے سے سیکھتے سِکھاتے ۔بعض اپنی غلطیوں یا کم علمی پر پچھتاوا لے کر اصلاح کی غرض سے اٹھ کر گھروں کیلئے روانہ ہوتے یا پھر نئے آئیڈیا وعزم کی ایندھن پا کر تازہ دم ہو کر ایک ایک کر کے بچھڑتے ۔ نوجوان اور بوڑھے لائبریریوں میں پڑھنے کی غرض سے بیٹھ جاتے یا کتاب وصول کر کے کسی پارک یا گھر کی راہ لیتے۔
ملکی حالات ایسے دگرگوں ہوئے کہ ہوٹلیں ویران ہوگئیں۔ لائبریریاں بند ہوگئیں۔ یا پھر لائبریریوں میں آنا جانا لوگوں نے ترک کر دیا۔آبادی کے لحاظ سے پارکوں میں اضافہ نہ ہوا۔ اصلاح احوال کی بجائے کتابیں ، اخبارات ، ٹی وی چینل کمر شلائزڈ ہوگئے۔ نظریاتی علم، سیاست ، اور جذبہ خدمت کی جگہ ذاتی مفاد اور غرض وغایت نے لے لی۔ جرائم اور منفی سوچ کو اصول پسندی کا نام دیا گیا۔
اسی دوران ترقی یافتہ ممالک میں جدید سائنس وٹیکنالوجی کے کرشمات ظاہر ہونے لگے ۔نئے اختراع و ایجادات کی یک دم یلغار ہوئی ۔ہمارے ہاں کتاب دوستی کی بجائے بچوں میں تشدد پسندی کے رجحان کو عام کرنے کے لیے نت نئے ویڈیوگیمز متعارف کروائے گئے۔ ترقی پذیر سرمایہ دار ممالک موبائل اور ویڈیو گیمز کیلئے بڑی منڈیاں ثابت ہوئے۔ ملک میں محض ڈگریوں کے حصول نے تعلیمی ترجیحات بدل کر رکھ دیں۔ ناجائز ذرائع سے نوکریوں کا حصول اور راتوں رات دولت مند بننے کے رجحان سے اخلاقیات کی دھجیاں بکھر گئیں۔
جدید ٹیکنالوجی کی آمد سے اپنی کم علمی کو بھانپنے اور احساس کمتری کا شکار ہونے کی بجائے ہم احساس برتری میں مبتلا ہوگئے۔ وہ جو ایک کونے سے لے کر دوسرے کو نے تک آکر کسی ایک ٹیبل کے اِرد گرد جمع ہوکر نئے رشتوں میں اپنے اپنے شعبے کے حوالے سے بند ھ جاتے تھے۔ اپنے اپنے گلی محلوں تک محدود ہوگئے۔ اور پھر ایسا وقت آیا کہ اپنے گھروں تک محصور ہوگئے۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر گھروں میں بھی اپنے اپنے کمروں میں دبک کر بیٹھ گئے۔ اینڈرائڈ موبائل نے تو اس قدر گمراہ کر دیا کہ چار لوگوں کی محفل میں بھی جاری گفتگو میں بے دھیانی اور ذہنی طور پر غیر حاضر رہنے کی روایت چل پڑی۔ اگر ہمارے موجودہ تعلیمی استعداد وتربیت کے مطابق سوشل میڈیا اور وٹس ایپ گروپس یا دیگر اپلیکیشنز اس قدر کار آمد ہوتے تو رشتے مضبوط ہونے کی بجائے نہ بکھرتے ۔تعلقات مستحکم ہونے کی بجائے غیر مستحکم نہ ہوتے، ایک دوسرے سے ہمدردی کا فقدان نہ ہوتا۔ بظاہر پاکیزہ روحانی گفتگو سے چہروں سے نحوست نہ برستی ،لوگ ایک دوسرے سے متنفرنہ ہوتے، الیکشن اور سلیکشن کا فرق ختم ہوجاتا۔ دو نمبر اشیاء کی خریدو فروخت کرنے والوں کو قانون اور عوام کی غضب کا سامنا کرنا پڑھتا ۔ انقلاب لانے والے عوام تک رسائی کی اس قدر آسانیوں سے بہت فائدہ اٹھاتے ۔ قتل وغارت گری، بچوں اور خواتین سے زیادتی پر ہماری نیندیں حرام ہوجاتیں ۔نیٹ کے ذریعے بڑی سے بڑی کتاب ،قلم کا راور دانشور انہ گفتگو قربت وسہولت سے ہماری علم دانش میں اضافہ ہوتا ۔چادر اور چار دیواری کا احترام نہ کرنے والے کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتے، رشوت خور اور زانی ،قاتلوں اور ناجائز منافع خوروں پر زمین تنگ ہوجاتی ۔
چونکہ ایک چھوٹے سے معدے میں بھانت بھانت کے خوراک ٹھونسے جار ہے ہیں جس کی وجہ سے نہ تو صحیح معنوں میں توانائی حاصل کر رہے ہیں۔ اور نہ ہی شکم سیری کو انجوائے کر رہے ہیں۔ بسیار خوری سے مرے جارہے ہیں او ر بے مقصد بسیار علمی سے ایک دوسروں کی نظروں سے گِرے جارہے ہیں۔نہ تو ہماری خوراک میں توازن ہے اور نہ ہی علم میں توازن ہے ۔ اِسی لیے فیس بک پر ہر جاہل کی طرف سے ہر پوسٹ کو لائیک کرتے ہیں۔ ہر غیر معیاری تحریر کو پڑھ کر کسی کو خوش کرنے کے لیے ویلڈن کا انگھوٹھا چھوڑتے جاتے ہیں۔ انسانیت اور انسانی بقاء کی بات کرنے والے اگلے ہی لمحے خاندانی ،علاقائی اور لسانی سیاست کا شکار نظر آتے ہیں ۔ چونکہ پردہ پوشی کا زمانہ نہیں رہااس لیے سب ہی ایک ہی حمام کے ننگے بن رہے ہیں۔
سطحی سوچ کی وجہ سے کسی کے سر پر کسی کے دھڑ کو سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ جس کی وجہ سے کسی کی بیماری اور فوتیدگی کو لائیک کرنے پر اپنی تمام تر ذمہ داریوں سے آزاد ہوجاتے ہیں۔ دیکھیے تیمار داری دلجوئی اور تعزیت کا حق ادا کرنے میں سوشل میڈیا نے کیسی آسانی پیدا کر دی ہے ۔غربت اور لاچاری کے پوسٹ کی ہوئی تصویر پر دوجملے لکھ کر اپنی ذمہ داریوں سے کیسے عہدہ برا ہوتے ہیں۔ ظالم کے ہاتھوں مظلوم کی پٹائی قلمبندکرنا ایک مشغلہ ہی تو بن کر رہ گیا ہے ۔ ملاوٹ کی نشاندہی کرنا ایک بریکنگ نیوز کے علاوہ ہے ہی کیا۔ لاشوں کے انبھار دکھا کر کس قسم کی خدمت ہورہی ہے ۔جب تک خبر پر ادب حاوی رہا انسان کا ضمیر زندہ رہا اب چونکہ ادب پر خبرمسلط ہو چکا ہے اس لیے انسان کی احساسیت سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ ترقی پذیرممالک میں موت اور زیست کا درمیانی فاصلہ تنگ کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے ہم زندگی کے فلسفہ کو سمجھنے سے نہ صرف قاصر ہیں بلکہ غافل بھی ہوتے جارہے ہیں ۔ ہم صرف باتوں کی حد تک زندگی سے پیار کرتے ہیں۔ ورنہ دیکھا جائے توہم میں سے ہر شخص خود کشی کے لیے تیار ہے ۔ اس مکاری کے باوجود ہم بچے بھی پیدا کر رہے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ دولت بھی اکٹھا کر رہے ہیں۔ ہر طرح سے نام ونمود کے لیے کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔ بڑے سے بڑے نقصان میں اپنے فائدے کو مقدم رکھتے ہیں۔ اگر زندگی کچھ بھی نہیں تو پیغمبروں ، اولیا کرام، صوفیا، اہل علم، دانش نے زندگی کو سمجھنے روحانی واخلاقی اقدار کے لیے اپنی زندگیاں کیوں صرف کیں۔ اس زندگی کو ہی اگلی زندگی کا حاصل کیوں کہا۔ ہر آنے والی نسل کی تعلیم وتربیت کے لیے ذمہ داریاں کیوں تفویض کی گئیں۔ عام عوام او ربڑے بڑے رہنماؤں نے اقوام کی آزادی ، ۔۔مظالم سے نجات کے لیے قربانیاں کیوں دیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے