سوچتی ہوں
وطن سے اب کوئی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نہیں آتا
ہر صبح اپنے ساتھ
دکھ بھری خبروں اور تصویروں کی پوٹلیاں لے آتی ہے
یہ صرف مجھے ہی نظر آتی ہیں
ورنہ زندگی تو چہچہاتی ہے
مرد اور عورتیں
فلرٹی انداز میں
پرلطف باتیں کرتے ہیں
اپنی شامیں خوش گوار بناتے
باتوں کے مشروب کی چسکیاں لیتے اور
داد و تحسین سے لبریز جملے اچھالتے ہیں
کوئی ہیجان خیز منظر
آرٹ کے نام پر لگاتا ہے
کہیں فیمنسٹ حسینہ
بے باک جذبوں پر نظم لکھ کر داد سمیٹتی ہے
کوئی پاکیزہ تسبیح کے نسخے بانٹتی ہے
عاقبت سنور جائے گر ان کو پڑھ لو
کہیں اپنے لیڈر کی شان میں قصیدے
اور مخالف کو فکری جہنم سے

اٹھتی بدبو کے بھبکے اڑاتی غلاظت میں
غوطے دیئے جا رہے ہیں
وہیں کہیں مستونگ کی ادھڑی ہوئی ویران پوٹلی سے
ایک تصویر ابھرتی ہے
ایک غم زدہ بوڑھا
کسی جوان کے خوں میں نہائے لاشے سے
لپٹ کر رو رہا ہے
بے بسی اس کی آنسو بہاتی آنکھوں میں
جم کے رہ گئی ہے
آس پاس بکھری ہوئی بہت سی لاشوں کے درمیان بیٹھا
سوچتا ہے
اسے شائد بھیڑ بکری سمجھ کر مارا گیا ہے
مگر
وہ تو کب کا مر چکا ہے
بے حسی کے ہاتھوں
کوئی کیسے بھلا کھائے گا
اس کا گوشت تو حرام ہو چکا ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے