کراچی
03/03/1953
میر جعفر خان!۔
السلام علیکم ۔ میں اور شیخ عبدالمجید صاحب 21مارچ کو جیکب آباد کسی کانفرنس میں حصہ لینے کے لیے آرہے ہیں۔ ہم کو بہت خوشی ہوگی اگر آپ اس وقت جیکب آباد میں موجود ہوں تاکہ ملاقات کر کے محظوظ ہوں۔
امید ہے خوش خرم ہونگے
زیادہ خیر وسلام
غلام مرتضیٰ
نوٹ : میر جعفر خان کو لکھا گیا خط جو محمد امین خان کو بھیج دی گئی ۔

کراچی
13/01/1954
مکری محمد امین خان صاحب
السلام علیکم ! ۔
عبدالصمد خان اِس وقت تک آزاد ہو چکا ہے۔ دوسروں کے لیے کوشش کی جائے گی۔ شہزادہ عبدالکریم کا شاید بھائی کے سوا کام پورا نہ ہوسکے گا۔ امید ہے خوش خرم ہونگے۔
زیادہ خیر وسلام
غلام مرتضیٰ
کراچی
30/07/1954
مکری میاں محمد امین صاحب
السلام علیکم!۔
میں گاؤں میں تھا اور طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ کل شام کراچی آنے کے بعد آپ کے دونوں خط خان عبدالصمد خان کے خطوط کے ساتھ پڑھے۔
خان اور ہم سب ایک قطار میں ہیں۔ موجودہ حکام کی نظر میں!۔بہر حال سنگت کے لیے حتی الامکان جو ہوسکا کریں گے ۔ لیکن فی الحال تو یہی امکان نظر آرہا ہے شاید سب ساتھیوں کو تکلیف پہنچائیں۔
کس مختیار کار نے آپ کے ملکیت سے ڈھل وصول کیا ہے ۔ ؟ خان بادشاہ آج ملے وہ مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہیں۔ مگر خوش ہیں۔ خدا ان بزرگوں کی عمر دراز کرے ۔ سوغات ہیں۔ یہاں قدر کمینوں کی ہے ۔ شریفوں کی آج کل کم پوچھتے ہیں۔
زیادہ خیرو لسلام
غلام مرتضٰے

سینٹرل جیل کراچی
03/01/1955
برادرم محمد امین !۔
السلام علیکم!۔
آپ کی یاد آوری کا شکریہ ۔میں خوش ہوں امید ہے آپ بھی خوش ہونگے۔ میں نے سب دوستوں کو بولا ہے کہ یہاں خط وکتابت نہ کریں۔ سبب دینے کی ضرورت نہیں۔ موسم خراب ہے ہرو بھرو (خوامخواہ) خود کو تکلیف میں میں نہ ڈالیں۔
اُمید ہے خوش ہونگے
زیادہ خیر والسلام
غلام مرتضیٰ

سن
28/08/1960
برادرم عزیر میاں محمد امین!۔
السلام علیکم!۔
آپ کا خط کافی وقت کے بعد ملا ۔ اندر تو پہنچتے رہتے تھے ۔ مجذوبیت نمایاں طرح ظاہر ہے ۔ جس میں کئی جواہر ریزہ مٹی میں ملے ہوئے باریک بین نظروں کو دیکھنے میں آتے ہیں۔
کافی وقت ہوا ہے ملاقات نہیں ہوئی۔ خبر نہیں مالی حالت کیسی ہے۔ اور عمر بڑھنے سے خوبروؤں کی ماحول سے دور ہونے کی وجہ سے حلیۂ مبارک کو کیسا رونق دیا ہے ۔
آپ کے سب خط فائیل میں ملا کر رکھے گئے ہیں۔ ایک طرف طبیعت ٹھیک نہیں رہتی ہے ۔ دل کی اور پیٹ کی تکلیف وقت بوقت ستاتی رہتی ہے دوسرا دس مہینے اندر گزارنے کے بعد دو سال مکمل گوٹھ میں ۔ وہ بھی سارا وقت اندر جگہ میں رہنا۔ ذرا گراں نظر آتا ہے ۔پر نا امیدی سے اُمید کی روشنی نظر آتی ہے ۔ زندگی کا سہارا بنا کھڑا ہے۔
ہاں مہ شو نا امید چوں واقف نئی از سرغیب
باشند اندر پردہ باز ھائے پنہاں ۔ غم مخور(حافظ)۔

سیاست میں سیدھی اَن سیدھی طرح حصہ لینے پر پابندی ہے ۔ جس میں لکھنا ، بات کرنا بلکہ خیال کرنا بھی آجاتا ہے ۔ اس لیے آپ کے لکھے حقائق کا جواب دینے سے قاصر ہوں۔ اب سارا وقت پڑھنے ، ادبی اور ثقافتی باتوں پہ فکر کرنے میں گزرتا ہے۔ اگر ان کے شائق ہو تو فرصت میں ملاقات کر کے جاؤ۔ راگ خاص طور پر مشغولیت کی وجہ بنتا ہے ۔
’’بدم گفتی وخور سندم تعالیٰ اللہ نکو گفتی ۔‘‘ والا مصرع ماحول اور واقعہ یاد ہے ۔ زندہ دِلی ہزار نعمت ہے ۔ امید ہے خوش ہونگے۔
سلام سب دو ستوں کو پہنچے
زیادہ خیر والسلام
غلام مرتضیٰ

سن
31/03/1961
برادرم میاں محمد امین!۔
السلام علیکم۔
آپ کے پانچ خط پہنچے مہربانی۔
میں نے ایک تاراور خط پہلے بھیجا تھا۔ جس کی پہنچ آپ نے بھیجی۔ باقی اس کے بعد کے پروگرام کے اطلاع والا خط بھیجا ہے ۔ اُمید ہے وہ بھی پہنچ چکا ہوگا۔
آپ کے خطوط میں سے ایک میں صدر پاکستان کی طرف تار کا مسودہ تھا ۔ آپ کی محبت اور صداقت کیلئے ممنون ہوں۔ لیکن ان سے آپ کے خیالوں میں اُلجھن کا پتہ معلوم ہوتا ہے ۔ شیخ صاحب کو آپ نے قریب سے نہ دیکھا ہے ۔ نہایت کمزور ہوگیا ہے ۔ کسی بھی محنت جیسی کام کرنے جیسا نہ رہا ہے ۔ سیاسی نظریات کی اختلاف کی وجہ سے میں نہیں سمجھتا کہ اگر اُس کو موجودہ سیٹ اپ میں کوئی بھی پوزیشن ملی تو وہ لینے میں راضی ہوگا۔ وہ ہمیشہ قلندر رہا ہے ۔ اسی حالت میں دنیا چھوڑ نا چاہتا ہے ۔ جہاں تک میرا تعلق ہے میں نے ملک کے عملی سیاست کو خیر باد کر دیاہے ۔ اس لیے کوئی بھی بات یا پیشکش مجھے اس طرف مائل نہیں کرسکتا ہے ۔ مجھے تعجب لگتا ہے کہ آپ ایک طرف سیاستدانوں کی خود غرضی بزدلی، عوام کی خوابِ غفلت ، شاعروں اور ادیبوں کی کم سمجھی ، پیروں اور بزرگوں کی فرض ناشناسی کی شکایت کرتے ہیں ۔ دوسری طرف مجھے اس طرف کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس راستے سے گزشتہ صدی سے ہندوستانی سیاست کی ڈور اور پالیسی ہندومسلم افسر شاہی کے ہاتھوں میں رہی ہے ۔ مسلمان زمینداروں اور جاگیرداروں نے ہمیشہ ان کی پیروی کی ہے ۔ ہندوؤں میں سیٹھ اور تعلیم یافتہ طبقے کی ڈور بھی ہندوافسر شاہی کے ہاتھوں میں رہی ہے۔
پاکستان بننے کے بعد جہاں تک پہلے چند خود غرض جاہل اور ناتجربہ کار سیاست دان رہے ۔ لیکن بعد میں باگ ڈور پھر افسر شاہی کے ہاتھوں میں رہی ۔ سیاست دانوں کی کامیاب پالیسیوں کا ذمہ دار بھی زیادہ تر یہی افسر شاہی طبقہ تھا۔
اس وقت بھی فرق صرف یہ ہوا ہے کہ اب افسرشاہی آگے ہے اور سیاستدان پیچھے ۔ پہلے والے ملکی مسائل حل کرنے میں ناکام ہوئے تو ان کا الزام چند اشخاص کو دینا ٹھیک نہیں ہوگا۔ آگے چل کر موجودہ افسر شاہی طبقہ مسائل حل کرنے میں کامیاب نہ ہوا تو بھی چند اشخاص پر الزام لگانا ٹھیک نہیں ہوگا۔ ساری خرابیوں کیلئے ذمہ دار عوام میں سیاسی شعور نہ ہونا اور اَپر کلاس میں خود مطلبی اور اخلاقی کمزوری ہوگا۔ اور آفسر شاہی لکیر کے فقیر بن کر صرف انتظامی درستگی ، مغربی ممالک کی پیروی میں تعمیری پروگرام کی منصوبہ بندی میں مشغول ہیں۔
ہمارے سیاست دان دوسرے ممالک کے سیاست دانوں اور افسر شاہی سے کسی بھی طرح کم نہیں۔ پھر بھی حالات درست نہیں ہوتے ہیں۔ تو اس کی وجہ کچھ اور ہوگی۔ اسی پر غور کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ قوم میں مفکروں کی کمی ہے ۔ یہ کمی صرف قومی ثقافت کو زرخیز بنانے سے پوری کی جاسکتی ہے ۔
سیاست آج کل پاور پالیٹکس کے بھنور میں غرق ہوگئی ہے ۔ اس میں جو بھی داخل ہوگا مصداق’’ہرکہ در کانِ نمک رفت نمک شد‘‘ ہو جائے گا۔
اس لیے بہترین طریقہ یہ ہے کہ سیاست کو درست کرنے کے بجائے لوگوں کے اخلاقی معیار کو بُلند کرنے کی طرف توجہ دی جائے ۔ مجھے وزارت میں بھیجنے کے بجائے ، مجھے ترغیب دو کہ بہترین خادموں کی تربیت کے لیے خانقا ہیں قائم کرا کے مخلص قومی کارکن پیدا کرنے کی کوشش کروں۔سندھ میں کافی قدیم ادارے ہیں جو پہلے سے ثقافتی مرکز ہیں۔ ان کے ذریعے یہ کوشش کی جائے اگر ان کے مدار المھام درست نہ ہوسکیں تو دوسرے نئے ادارے کھول کر بھی کام کیا جائے ۔ یہ گشت (سفر) اس کام کے سرو ے کے لیے شروع کیا ہوا ہے۔
سیاست عمل کے پیروکار کافی ہیں مگر قومی خادم کم ہیں۔ اس لیے موجودہ سیاست کی راہ ہی غلط ہے ۔البتہ اگر ہماری صلاح اور مدد کی ملکی سیاست کو ضرورت پڑی تو ہم بغیر اُجرت کے تیار رہیں گے۔ لیکن ہمیں اس بات میں کوئی بھی دلچسپی نہیں ہونی چاہیے کہ خدمت ان کے ہاتھ میں ہو یا ’’ گاؤ رفت خر آمد مرا ازیں چہ سود‘‘۔ پہلے ہی داناؤں نے کہہ دیا ہے۔
ہم موجودہ حکمرانوں کو بھی ملک اور قوم کے مفاد کے لیے صلاح اور مدد دینے کے لیے تیار ہیں۔ بشرطیکہ ان کی ان کو ضرورت پڑے۔ لیکن علیحدہ عملی سیاست میں حصہ لینے سے ہمیں کنارہ کش ہونا ہے ۔ شیخ صاحب قریبی دنوں میں نہیں ملے ہیں۔ اگر ملے تو اسے بھی ایسا مشورہ دوں گا۔
میں 19اپریل1961 کو اول خیردوپہر کو رو ہڑی سے آپ کے گاؤں آنا چاہتا ہوں۔راستے کا معلوم نہیں ہے ۔ لکھ بھیجنا کہ کہاں سے کس راستے سے اِس طرف آسکتے ہیں۔ شکار پور مرحوم اللہ بخش کو فاتحہ دینا ہے ۔ شام کو لاڑکانہ کے راستے سے واپس گوٹھ جانے کا ارادہ ہے ۔
حکومت کے مالکوں اور مخالفوں کے قریب نہیں جانا چاہیے۔ بن بلائے مہمان کی طرح ہمیں صلاح اور مدد ضائع نہیں کرنا چاہیے ۔ آخر۔’’ اُدھر پتہ نہیں اِدھر بھائی عشق میں اندھا ‘‘۔ ہمیں ناکام، خود غرض سیاستدانوں کے ہاتھوں میں جمہوریت ، اسلام وغیرہ کے نام پر کھیلنے سے کنارہ کرنا چاہیے ۔ اسی طرح موجودہ حکمران طبقے کا حامی بن کر کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہونگے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے