نسبتیں ہیں آگ سے اور، راستہ پانی کا ہے
کیسے طے ہوگا جو ہم سے فاصلہ پانی کا ہے
خاک تیرے پاؤں چھونے کیلئے بے تاب تھی
ہونہ ہو، توہی یقیناًدیوتا پانی کا ہے
دل کے اندھوں کو ہرا سوجھا ہے تو سوجھے مگر
آنکھ والوں کیلئے تو مسئلہ پانی کا ہے
تم نے سمجھا روشنی کے قتل کا نوحہ جِسے
وہ سکوتِ شام پراک قہقہہ پانی کا ہے
ایک شاعر نے ٹٹو لا کیسۂ آبِ رواں
تم غزل سمجھے ہو جسکو، جائزہ پانی کا ہے
خود فریبی دیکھیئے ،اُس پار جانے کیلئے
کاغذی ہیں کشتیاں اور آسرا پانی کا ہے
میں نے اپنے کل کو دیکھا تو کھلاتھا آج یہ
جس کی خاطرخوں بہے گا واقعہ پانی کا ہے
کون اترا ہے بھلا اس جھیل کی گہرائی میں
یہ بلا کا شوق، اور یہ حوصلہ پانی کا ہے
بے کراں سمجھے تھے طاہرؔ ہم سمندر کا وجود
جاکے دیکھا تو ذرا سا فاصلہ پانی کا ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے