آؤ کچھ اور گیت یاد کریں

جانے کن موسموں کی یاد آئی
سرمئی آسماں کے دامن میں
کچی مٹی کے کچھ مکانوں پر
ٹین کی بے چمک چھتوں پر کہیں
چاندنی رات جیسے ڈھلتی ہے

اوس میں بھیگتا ہے شہرِ خیال
صحن کے اک شکستہ گوشے میں
عشقِ پیچاں کی بیل چڑھتی ہے
یہیں شہتوت کی حلاوت میں
کچھ پرندے کھلی فضاؤں کے
شام کے وقت یاد آتے ہیں
جیسے انگور میں اترتی ہے
ساعتِ ترشیء شبِ رفتہ
جیسے ٹھنڈی ہوا کا اک جھونکا
چھو کے رہ جائے وقت کا رخسار
شوخیِ حشرِ کم سنی جیسے
وقت کے بیتنے کے حسن سے بھی
یونہی کرڈالے بے وجہ انکار

ہم تو اک گیت بھی نبھاہ نہ سکے

2

شہر امکاں کے بام ودرسے ابھی
دھوپ آتی ہے کچھ جھروکوں سے
اوٹ سے جھانکتا ہے کوئی ابھی

کچھ درختوں کے سبز سائے میں
ٹوٹی اینٹوں کے ایک آنگن میں
کچھ ستارے ابھی بلاتے ہیں
راستہ روکتی ہے شام بہار
برف کی آنچ میں سلگتے ہیں
خط، کتابیں ، خیال اور دماغ
تھام لیتی ہے ہاتھ ، یا کوئی
کسمساتی ہے رات پھولوں میں
آرزو، حسرتِ گزشتہ کی
مسکراتی ہے چاندنی جیسے
وقتِ رفتہ کی رہگزاروں میں

ایک خوشبو میں جاگتا ہے دل!
کون سی پیاس بچھ نہیں پاتی
آؤ کچھ اور گیت یاد کریں
3

آؤ ، وہ گیت یاد کرتے ہیں
جس میں صبح طرب کا مژدہ تھا
جس کی لے تھی زوالِ شب کی نوید
جس کے بولوں میں زندہ منظر تھے
جس میں امید کا ترانہ تھا
جس کے خط پہ رکی تھی گردشِ وقت!

اب پلٹ کرنگا ہ ڈالیں تو،
دل کے خالی اداس کمروں میں
بے یقینی کی خاک ، اڑتی ہے
رائیگانی کا دکھ دہکتا ہے
عمر جتنے بھی موڑ مڑتی ہے
ایک تصویر نا مکمل سی
وقت کے حاشیے میں جڑتی ہے

4

زندگی بے ثمر ریاضت ہے
ابرِ بے آب ہے محبت بھی
تشنہ رکھتی ہے بے سبب کی آس
کتنی بے فیض ہے عبادت بھی
ایک معنی ہیں ساری چیزوں کے
خوش دلی بھی وہی ، اذیت بھی
ساری شیریں دھنوں کی اک تاثیر
تلخ ہوتی ہوئی کئی یادیں۔۔!

خواب مجرم ہیں گویا آنکھوں کے
کتنی نا مہربان شاموں میں
کتنی بے خانماں بہاریں ہیں!!
آؤ کچھ اور گیت یاد کریں

Guilt

ان دنوں موسموں کے اشارے بھی اچھے نہیں ہیں
میں فضا میں پرندے نہیں چھوڑسکتا
امن کی کوششیں رائیگاں ہورہی ہیں
ابھی شام اپنی ہوا میں خنک تربہت ہے
پرانے درختوں پہ لکھے ہوئے نام سب مٹ چکے ہیں
مگر باغ میں ٹہنیوں پہ گزشتہ بہاروں کی یادیں
نیچے چشمے کے پانی میں گھلتی لہوکی شفق
گھاس کے خشک تختے پہ دہشت کی گہری لکیر
دور تک منظروں کو کشادِ نظر کی سہولت بہم کر رہی ہے

خیمہ ء فکر بوسیدہ ہوتی طنابوں پہ کب تک رہے گا
مطلعِ حرف پر ایک المناک صبحوکے آثار ہیں
ختمِ شب کا سفر اتنا آسان نہیں
آؤ نغمے لکھیں۔۔ آؤ باتیں کریں
دائرے میں آلاؤ کوروشن کیے
ہم نے کتنے زمانے اکٹھے گزارے نہیں ہیں
ان درختوں کو بوتے ہوئے ہم نے سوچاہی کب تھا
کہ ان پر
ہمارے سروں کے ستارے بہت دیر روشن رہیں گے !۔

ہم قصیدہ نہیں لکھ سکیں گے
نظم لکھتے ہوئے ہاتھ میں استقامت بہت ہے
شاخ ۔ ۔۔برگِ خزاں کے لیے بوجھ ہے
جانتے ہو۔
پچھلی بارش کی ساری نمی خشک ہو بھی چکی
تم ندامت کے تازہ ورق پر چلے
تم نے سورج کی رفتار تک جاننے کی جسارت نہیں کی
اور وہیں ہو۔۔ جہاں تھے
خود بصارت سے محروم ، اور شہر کو ، کور فکروں سے بھرتے رہے
وقت لیکن بدلتا نہیں
حکم ٹلتا نہیں
وقت کے حکم پر
فیصلے کی گھڑی سے گریز
اپنے سائے کی ٹھنڈک میں کتنے زمانے گزارو گے تم
اب مگر،
دھوپ سر پر کھڑی ہے تو احساس کی خیمہ گہہ میں
کوئی حرف دعا
موسموں کی تپش
بے یقینی کا غم
کم نہیں کرسکا
اہل اور اک کو موسموں کی خبر!۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے