جاگنا نہیں ابھی 

یہ ابتدا ہے
ابتدا ہے تیرے میرے خواب کی
کہ ابتدا میں انتہا ہے
اور یہ جو درمیاں ہے درمیاں سے وا نہیں ہوا ابھی
میں ابتدا سے درمیاں میں مضطرب ہوں
مضطرب ہوں ہوش میں
میں مضطرب ہوں خواب میں
یہ خواب ہے ، یہیں رکا رہے تو کیا
جہاں خیال مل رہے ہیں عین اْس منڈیر پہ
رتجگوں کے دیپ تھرتھرا رہے ہیں شام سے
خراب ہے یا ٹھیک ہے
کسی جمال سے جو میری آنکھ کو عطا ہوئی
وہ رتجگوں کی بھیک ہے
یہ انتہا ہے
ابتدا میں انتہا کا تجربہ ہے
تجربے میں درمیاں کی آہٹیں ہیں
جاگنا نہیں ابھی
ان آہٹوں سے زندگی کی دْھن بدل گئی ہے اور
یہ گرم سانس ذائقہ بدل رہے ہیں جسم کا
یہ کہہ رہے ہیں جاگنا نہیں ابھی
یہ ابتدا میں انتہا کی کیفیت ہے
درمیاں میں فاصلہ رہے تو کیا ہے
نہ رہے توپھر بھی کیا؟
کہ ابتدا میں انتہا تو ہو چکی
روح کی پری کہیں پہ
جسم کے جنون میں ہی کھو چکی

یہاں پھول تھے

یہاں آگ ہے
مجھ کو لے چل یہاں سے یہاں آگ ہے
یہ زمیں۔۔۔۔۔۔ جس کو جنت کا ٹکڑا سمجھتا تھا میں
میری جنت تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آزارِ جاں بن گئی
وہ زمانہ کہیں کھو گیا ہے کہ جب
آسماں (اب جو چرخِ کہن ہے)
فقط مہرباں آسماں تھا
یہ رستے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ رستے نہیں ہیں
جنہوں نے کبھی مجھ کو چلنا سکھایا
مرے آشیانے میں گندھک کی بْو نے
مری نیند کو مستقل رتجگے میں بدل کر
مری جیت کو مات دے دی
یہاں حوصلے اب بھی بازار میں بِک رہے ہیں
مگر میری مْٹھی میں سِکے ہی کم ہیں۔۔۔۔ فقط تْو ہی تْو ہے
سو اب میری جنت کو جنت بنانے میں
کتنا سمے تجھ کو درکار ہے یہ بتا؟

لایعنیت کی سیڑھی پر

یہ ہونا، نہ ہونا
ہے مٹی سے ہلکا بدن کا یہ سونا
یہ صدیوں کی اْلجھن
نفرت کی دہشت، محبت مشقت
پھٹے بادباں کا تنفس ہے اک کارِ بے کار
دہشت میں پتوار
ناؤ کے ماتھے سے ٹپکا پسینہ
خدا جس کے قطروں کی حدت کو پہچانتا ہے
یہ لہروں میں کھونا، یہ ہونا بھی کیا ہے؟
کہ ہر لمحہ بیگار بنتا چلا جا رہا ہے
غزنی کی کوئی گلی ہو
کہ تفتان کی دھول
دہشت کے موسم میں پھٹتے ہوئے پھول
طیب خیالوں کی بازار میں مانگ گھٹتی چلی جا رہی ہے
کہ دہشت جو بڑھتی ہے
بیکار ہے سوچنا، جاننا اور لہْو کو جلانا
یہ ناراض ہونا
کہ مٹی سے ہلکا بدن کا یہ سونا
یہ ہونا، نہ ہونا
فقط کارِ بے کار

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے