سوچوں کے ہینگر پہ ٹنگی آنکھیں 

انا میکا!ذرادیکھو
کہ سورج کتنے جنموں سے مری گلیوں میں ٹھہرا ہے
مگر ایسی سیاہی تو کبھی دیکھی نہیں ہو گی
سیہ سورج ، سیہ گندم، سیہ آنسو، سیہ پرچم ،
سیہ اوراق بھی تم نے کبھی دیکھے نہیں ہوں گے
انامیکا! جنم بھومی ہے یہ میری
جہاں عیسیٰ صلیبِ شہر کا ہمزاد ہو بیٹھا
پھر اس کے بعد سے جو دن چڑھا
وہ لب پہ گالی ، ہاتھ میں پستول لے کر سر پہ آبیٹھا
یہاں جب رات بھی آئی
تو سر میں مقتلوں کی راکھ، آنکھوں میں لہو لائی
مراٹیچر توکہتا تھا :
’’محبت مر نہیں سکتی …………………….. …۔
شعوروآگہی بھی بک نہیں سکتے ………….. ‘‘۔
پہ میرے شہر میں ہمدم!شعوروآگہی حرص وہوس کارزق بنتے ہیں
(وہ شاید سچ ہی کہتا تھا کہ وہ اس وقت ٹیچر تھا، میں اک معصوم سابچہ)
مگر جب مکتبوں سے ڈگریاں لے کر میں لوٹاتھا
اسی دن سے مرایہ شہر تو اندھے سرابوں کے
کسی لامنتہا جنگل میں رہتا ہے
اور اب تو اپنے ماضی کے ہزاروں بت تراشے
مسجدوں میں گونجنے والی اذانوں پر وہ اٹھتا اور سوتا ہے
شکستہ یاد کی سیڑھی پہ بیٹھا
ہاتھ میں تسبیح کے دانے گھماتا اور کہتا ہے کہ
اب لوحِ مقدر پر لکھا مٹ ہی نہیں سکتا!!۔
انا میکا!۔
مری سوچوں کے ہینگر پر ٹنگی آنکھیں یہ کہتی ہیں :۔
’’ستارے کیوں نہیں چمکے؟
سویرے کیوں نہیں مہکے؟
چوراہے میں کھڑے برگدکی آنکھیں کیوں نہیں برسیں؟
زبانوں پر لگے چپ کے یہ تالے کیوں نہیں ٹوٹے؟
خیالوں میں تنے مکڑی کے جالے کیوں نہیں اترے؟‘‘۔
انا میکا!۔
تمہیں شب کے کناروں پر نیا سورج بنانا ہے
تمہیں اندھے نگر کے ہاتھ پر آنکھیں بنانی ہیں
صداقت امر کرنی ہے!۔

 

اَدھ پکی خوبانیاں
خموشی الفتوں کے سوکھتے پانی کا مدھم سا اشارہ تھا
جو مجھ پر منکشف ہونے نہ پایا تھا
وہ قسمیں اوروعدے بھی املتاسوں کی تھیں پھلیاں
جو خود ہی ٹوٹ کر شاخوں سے گرتی ہیں
تعلق گھر سے باہر سیڑھیوں پہ رک گیا تھا
پھر ہمارے درمیاں وہ کس طرح رہتا ؟
خدایا! پچھلی رُت کی جامنوں کے رنگ
پوروں سے اترتے کیوں نہیں آخر؟
مجھے ان بھیگتی راتوں میں کس کی یاد کی آہٹ ستاتی ہے
کہ جس کارنگ میری سوچ کی گھاٹی کے اندر کھو چکا کب سے
محبت ڈوبتے دن کی ادھوری سی کہانی تھی
تو پھر یہ کون ہے
جو اَدھ پکی خوبانیوں کا ذائقہ لے کر مرے خوابوں میں آتا ہے
یہ کس کے ہاتھ نے نیندوں کے رخساروں کو چوما ہے؟
یہ کس موسم کی سرسوں مسکرائی ہے ؟
……. میں اس سے ملتجی ہوتا ہوں کہ اس منتظر سورج کو
ہنس کے دیکھ لو تاکہ وہ ڈھل جائے
وہ ہنستی ہے ،شرارت سے ہوا کو چومتی ہے ، گنگناتی ہے
میں کہتا ہوں:
ترے گالوں کے ڈھلوانوں پہ چپ سادھے پڑے ڈِمپل
مجھے کیوں خشک سی جھیلوں سے لگتے ہیں
وہ رودیتی ہے
اور جھیلیں کسی بے رُت کے ساون سے چھلک جانے کو کرتی ہیں ………..
مرے خوابوں کا برتن ٹوٹ جاتا ہے چھنا کے سے
سو میں نے تم سے دُوری کا یہ زینہ کیا اترنا تھا
کہ میں جیون کے اس پاتال کے اندر ہی جااترا
پھر اس کے بعد کیا تھا
بس وہی اک ریستوراں کی میز
چائے اور وہی بوسیدہ باتوں کی تھکن کا دکھ
وہی سڑکیں، وہی موسم ، وہی شہروں کی یکسانی، وہی جنموں کی ویرانی
سنا ہے بیکراں تاریخ
تاریخ شرارت کرتی ہے
(کارل مارکس کی تصویر دیکھ کر)
اپنے فیصلوں پر نظرثانی کی کوئی عادت نہیں رکھتی
مگر یہ وقت
جس کی گود میں لیٹے ہوئے وہ منہ بسورے جابجا کروٹ بدلتی ہے
اسے خود سر سمجھتا ہے
یہ اس کی لاابالی سی طبیعت کو وہ بوڑھا ہی سمجھتا تھا
جواب دیوار پرمیخوں کی اِک سُولی پہ لٹکا
منجمد آنکھوں سے اس کو دیکھتا رہتا ہے ، پر کچھ کہہ نہیں سکتا
یہ اِک لڑکی اسی بوڑھے سے ڈرتی تھی
یہی وہ تھی کہ جس نے عہدِ رفتہ کے کسی کاغذ پہ کچھ خوش رنگ تصویریں بنائی تھیں
وہ جن میں عہدِ نو کی سمِفنی کے رنگ تھے
ہر رنگ میں تہذیب کی قبروں سے اٹھتی سسکیاں
قوس قزح سی مسکراہٹ میں بدلتی تھیں
کہ جن میں پھول تھے گمنام سی دنیاؤں کے خوابی جزیروں کے ،مگر اس لاابالی ، ضدی لڑکی نے
(شرارت سے)بس اک پاؤں کی ٹھوکر مار کر اِیزل پٹخ ڈالا
تو پھر بھی 52354فٹ کے چوکھٹے میں دُبکا بوڑھا
اس سے کچھ کہہ ہی نہیں پاتا
سواب کیا کیجئے
کہ بیکراں تاریخ اپنے فیصلوں پر
نظرثانی کی کوئی عادت نہیں رکھتی
سنا ہے ماسکو کہ جس کی گلیوں میں
پرومیتھس کوئی ستر برس ٹھہرا رہا
اب اس کے جانے سے بہت ہی سرد طوفانوں کی زد میں ہے
نئے کیلنڈروں پر اب دسمبر کے علاوہ کچھ نہیں ہے ؟

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے