ایر رچ

ایر رچ! ۔
چہ قدحے آایر رچ
چو خمار شنگ بو
چو بہار ایر رچ
ایر رچ ماں جان ئے ہورکیں قدح آ
کہ زردے ہشکیں کہچرانی
بے قراریں خرگوشک
پہ بہارے ءَ زراں
اے تیوگیں ندارگانی آسک چرتگیں بدن
پہ خمارے ءَ زراں
ایر رچ!۔

وسوسوں کے شہر میں اک شام

لگتی ہے راستوں پہ ہر اک چاپ اجنبی
عفریت ساحلوں پہ اترتے ہیں اس گھڑی
کاندھوں پہ ڈالے آتے ہیں سامان اپنا بھوت

اک کال سے لرزتا ہوا ٹیلی فون بوتھ

اک خواب سا خمار ہے ہر سو بچھا ہوا
ہر کوئی ایک ہاتھ ہے خود سے بڑھا ہوا
چھوٹے ہوئے ہیں سب کے ہی ہاتھوں سے اپنے بھاگ

یادوں کی اک مہک لیے کھلتی بئیر کی جھاگ

دور اک مکاں کی چمنی سے اٹھتا ہوا دھواں
بے خوابیوں میں سرخ سی اک آنکھ۔ آسماں
سورج نگل کے لوٹ رہا ہے عظیم۔۔۔۔ باز
کیا کچھ لیے ہوئے ہے یہ لہروں کا اٹھتا ساز

جنگل میں لائٹ ہاؤس کی تلاش

 

زیرِ آب جتنے بھی پودے تھے
اچانک سمندر کی آخری بوند تک پی چکے ہیں
مردہ مچھلی کی بو سے دھرتی باسیوں کو
قے آنے لگی ہے
پیاس کی شدت سے زباں ناف تک لٹکنے لگی ہے
کشتیاں جتنی سمندر کی تھیں ساری
جنگلوں میں جاگری ہیں
اور کشتی والے سب حیران ہیں
انجان ہیں جنگل کی رسم و راہ سے
اور لچکدار گھنے آبی پودوں کو درخت پا کر ہراساں ہیں
سارباں کمپس کو تپکی دے رہا ہے
رابطے سب منقطع ہیں
اور تمام مسافر اس گھنے جنگل میں بھی
لائٹ ہاؤس ڈھونڈنے کی جستجو میں
باری باری مر رہے ہیں

 

کہانی لایعنی 

مری کہانی
مری کہانی نہیں رہی ہے
مری کہانی کے گیت مرجھا چکے ہیں سارے
مری کہانی کے سارے کردار مرچکے ہیں
اب حبس ہے اور گھٹن کے کھیتوں کا سلسلہ ہے
مری کہانی میں موت کی دیوی حاملہ ہے
اور ہر طرف موت ناچتی ہے
میں اجنبی!۔
اب اپنے کردار کو نبھانے کے سارے اسرار کھو چکا ہوں
میں اپنے سپنے تمام بنجر زمین میں شب کی بو چکا ہوں
میں آگ کی زرد رو کلائی پہ سوچکا ہوں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے