بلوچ کانفرنس اقتدار میں

ہم ذکرکرچکے ہیں کہ 1932میںیوسف کے والد کیسر خان کو سیاسی وجوہات کی بنا پر سرداری سے معزول کر کے ملتان بدر کیا گیا اور اُس کی جگہ اس کا بڑا بیٹا گل محمد سردار بناتھا۔
شاعر گل محمد بیما راور نا اہلی کی حد تک لاپرواہ ثابت ہوا۔ اُس سے سرداری نہ چلائی جا سکی۔ بار بار ناکام ہوا اور بار بار سرکار کو اپنے اہلکار قبیلے اور جاگیر کی دیکھ بھال پر متعین کرنے پڑے۔
۔1930 میں گل محمد نے سرکار سے درخواست کی کہ اُس کی مدد کے لیے اس کے چھوٹے بھائی یوسف عزیز کی خدمات دی جائیں۔
مگر یوسف تو خود وزیراعظم شمس شاہ کے ہاتھوں جیل میں تھا۔ وہ آسانی سے سرداری معاملات میں یوسف کی شمولیت کہاں قبول کر سکتا تھا۔ چنانچہ اس فاشسٹ نے اُس کی درخواست مسترد کردی۔ گل محمد سے لکھوالیا کہ ’’ وہ بیمار ہے اس لیے سردار کی ذاتی ملکیت اور علاقہ مگسی کی دیکھ بھال وزیراعظم (سرشمس شاہ) کے ذریعے ہوگی‘‘۔یہ کرواکر اُسی شمس شاہ نے اُسی گل محمد کو گرفتار کر کے مستنگ پٹخ دیا اور اُس کی جائیداد اپنے نائب جہان سنگ کے سپرد کردی(1 )۔
اُدھر یوسف جیل کا عرصہ پورا ہونے پر رہا ہوا تووہ قلات ریاست کے خلاف قبیلے کی قیادت کرتا ہوا سندھ ہجرت کرگیا۔ یہ ہجرت مشہورِزمانہ ’’مگسی ہجرت ‘‘(1930) کہلائی۔
اسی دوران خان کلات محمود خان مرگیا ، اور اس کے دل پسند وزیراعظم شمس شاہ کو نئے خان اعظم جان نے معزول کردیا۔ گل محمدمگسی کو رہا کردیا اور جھل جاگیر سرکارسے آزاد کرکے گل محمد کے حوالے کردی۔ یوسف کی تجویز کردہ جہاں دیدہ اور فہمیدہ مگسیوں پر مشتمل ایک انتظامیہ کونسل تشکیل دی گئی۔
مگر،ایک بار پھر گل محمد ناکام۔ ایک بار پھر جاگیر سرکاری افسر نبی بخش کے حوالے ہوگئی۔ مگسی قبیلہ پھر بے چین ۔اور اب بالآخرخان نے اُن کا مطالبہ مان لیا۔ یعنی یوسف کی سرداری کے لیے سفارش مرکزی سٹیٹ کونسل کو بھیج دی۔ کونسل نے خان کی بات نہ مانی مگر خان نے گل محمد کی معزولی کردی۔
یوسف علی عزیز مگسی کے سردار بننے کی بات بھی عجب ہے ۔ اچھا ہوا کہ بلوچستان آرکائیوز کے خزانے میں سے ہمیںیہ ٹکڑا مل گیا۔ ورنہ اس کی آئندہ والی سوانح عمری لکھنے اور سمجھنے میں بہت دشواری ہوتی ۔ آپ بھی اُس خفیہ رپورٹ کو پڑھیں جو چھوٹے اہلکار نے اپنے افسر کو بھیجا تھا۔ :’’28مارچ 1933مگسی جب کوئٹہ میں تھا تو اس نے اپنے ایک تحریکی ساتھی بلدیو کو بتایا کہ پی اے قلات اور ریاستِ قلات کے حکام چاہتے ہیں کہ اگر وہ لکھ کردے کہ وہ کسی سیاست میں حصہ نہیں لے گا تووہ اسے قبیلے کا نواب بنادیں گے‘‘۔
اور ایسا ہی ہوا۔ کوئی تحریر تو ہمیں اِس سلسلے میں نہ ملی لیکن اسی طرح کے بالواسطہ بہت سارے شواہد موجود ہیں کہ یوسف عزیز مگسی نے اپنے قبیلے سے باہر کی سیاست سے دور رہنے کی یقین دہانی بہر حال کرائی تھی ۔
اس کا ایک ثبوت تو ہمیں اُسی سال کے اواخر کا ملا جب انگریز نے ایک خط میں باقاعدہ طور پر سردار بنے ہوئے یوسف عزیز سے شکایت کی تھی ۔ یہ شکایتی خط انگریز پولٹیکل ایجنٹ کلات نے 23دسمبر1933کو یوسف کے نام لکھا جس میں اس معاہدے کا تذکرہ کیا: ’’ جب آپ کوسردار مقرر کیا گیا تھا تو آپ نے ہزہائی نس مرحوم خان (اعظم خان)کو قول دیا تھا کہ آپ اپنے تمن سے باہر کے معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے ‘‘۔
دلچسپ ہے ناکہ ایک انقلابی کو اقتدار تو ملے مگر اس شرط پر کہ آپ سیاست نہیں کریں گے ،سیاسی سرگرمیوں سے واسطہ نہیں رکھیں گے ،اور سیاسی دوستوں سے دور رہیں گے۔ایسابہت کم جگہوں پر ہوا ہوگا ۔
مگسی عوام گل محمد کی سرداری سے بغاوت کر بیٹھے تھے۔ لہذا یہ بات پکی تھی کہ گل محمد سردار نہیں رہ سکتا ۔ اب یا تو یوسف ،خانِ کلات کی شرائط مانتا بصورت دیگر سرداری اُس خاندان سے باہر نکل جاتی۔ اور اگر خانِ کلات کی شرائط مانتا تو فطری طور پر اُسے خدشہ تھا کہ اتنی جانفشانی اور محنت سے جو عوامی بہبود کا پودا لگایا تھا، برباد نہ ہوجائے۔جو سیاسی پارٹی قائم ہوئی تھی بکھرنہ جائے۔
ظاہر ہے اسے اِس امید پہ ثانی الذ کر آپشن قبول کرنا پڑا کہ وہ کسی نہ کسی طور اپنی سیاست کو بھی جاری رکھ پائے گا۔
ایک عرصے تک یوسف کی سرداری کی دستار بندی کی تاریخ کے بارے میں کنفیوژن مسلط رہی۔ یہ مسئلہ بھی سارے بلوچوں اور جمہوری انسانوں کے محسن، ہفت روزہ البلوچ نے حل کردیا۔ شمارہ4جون 1933 کے صفحہ 3پر میر عبدالعزیز کرد ، اور 11شمارہ جون 1933کے صفحہ 2پر میر لطف علی خان کا مضمون چھپا۔میر لطف علی کے آرٹیکل سے یہ ٹکڑا : ’’جناب اعلی حضرت بگلر بیگی ہزہائی نس والی قلات (اعظم جان) وجناب جلالت مآب ایجنٹ ٹو گورنر جنرل فرمان فرمائے بلوچستان نے بموقع جلسہ وجرگہ سیبی سال رواں (فروری 1933)میر گل محمدخان کو سرداری سے معزول کر کے اُس کی جگہ اس کے بھائی سردار میر محمد یوسف علی خان صاحب کو سرداری دینے کی تجویزعمل میں لائی گئی۔ چنانچہ اب ماہ مئی 1933کو گورنمنٹ آف انڈیا کی منظوری آنے کے جناب اعلیٰ حضرت والی قلات نے کوئٹہ میں سرداری کا اعلان فرمایا۔ اعلان کے بعد جب سردار میر محمد یوسف علی خان صاحب جھل اپنے وطن میں تشریف لائے تو تمام قوم مگسی نے ان کو باقاعدہ قدیمی دستور کے مطابق قبیلہ وار اُن کی دستار بندی کرادی ‘‘
یعنی ،مگسی قبیلہ کے اٹھارویں سردار کے بطور اِسی سال (1933 میں)گل محمد زیب مگسی کو نوابی سے معزول کر کے یوسف کی دستار بندی ہوتی ہے۔ کرد صاحب نے اس تبدیلی کو ایک ’’پرامن اور خاموش انقلاب ‘‘کا نام دیا ۔
اس سارے واقعے کو زیب نے شاعرانہ صوفیانہ درویشانہ اور بظاہر بے پرواہانہ انداز میں یوں بیان کیا:
مرادِ سلطنت راترک کردم بہرِِ درویشی
چو ابراہیم ادھم‘ ملک و سامان دادم و رفتم
لیکن ایک بڑے شاعر کی طرف سے اچھی شاعری کے ذریعے حقائق کو توتوڑا نہیں جاسکتا ناں۔ میرے مرحوم بزرگ ! ’’ ترک کردم‘‘ اور’’برطرف کردن‘‘ میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔

سرداری کا علاقہ ، مسائل اور وسائل

آئیے ذرا دیکھیں کہ یہ سرداری کتنی بڑی تھی ۔ مولانا عبدالکریم نے مگسی علاقے کے بارے میںیوں لکھا:
یہ بلوچی شہر بلوچستان کے حصہ کچھی میں 80میل طویل اور 60میل عریض جنوبی آباد، سرسبز،اور زرخیز علاقے کا صدر ہے اور یہ علاقہ تمام کچھی میں آبادانی وعمرانی پہلو سے ایک ممتاز اور نمایاں علاقہ یقین کیا جاتا ہے جس کے اند ر ستراسی ہزار مگسی بلوچ آبادی کے بلوچانہ امصار پائے جاتے ہیں جن میں کچھ تو عرب کے ریگستانی حدی خوانوں کی طرح زندگی بسر کرنے والے ہیں اور زیادہ تر کھیتی باڑی کا شتکاری کرنے والے ہیں۔
’’من حیث المعاشرت عوام عرضہ الحال وخوشحال ہیں، برٹش گورنمنٹ کی علمداری ہے‘‘۔
خان عبدالصمد اچکزئی کے بقول، ’’ مگسی سردار کی ساری جائیداد اور چالیس پچاس ہزار تپہ اُن کے حوالے ہوا جو کہ وسیع زمین اور اچھی خاصی ریاست تھی۔ زمینوں سے سالانہ لاکھوں روپوں کی پیداوار ہوتی تھی اور قبیلہ بھی سردار کے کہنے پر جو کچھ وہ مانگتا، دے دیتا ۔ اس جاگیر کا نام’’ جھل مگسی‘‘ ہے جس کی اپنی عدالت اور جیل ہے۔یہ علاقہ دیگر منافع بخش اشیا کے ساتھ قلات کے کچھ دیگر سرداروں کی طرح شراب کی اپنی بھٹی رکھتا تھا۔جہاں ہندو ٹھیکیدار کے ہاتھوں شراب بنتی تھی اور چوری چھپے سندھ بھیجی جاتی تھی،منافع سردار کا۔ایک ایسا سرداری مضبوط علاقہ، جہاں عام شخص دوسرے سے حال احوال کرتے وقت بھی ’’سردار کے سرکی سلامتی‘‘ کہہ کر شروع کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ مگسی سردار بھی دوسرے بڑے بلوچ سرداروں کی طرح شاہی جرگے کے علاوہ قلات سٹیٹ کونسل کا ممبر بھی تھا۔ خان قلات بھی کچھ تنخواہ دیتا تھا‘‘۔
مرید حسین ہماری معلومات میں یہ اضافہ کرتا ہے :’’برساتی ندیوں میں مولا، ڈھوری، ڈھورہ، سائی اور بادرہ سے سیلاب ہوتا ہے ۔ پہاڑ کے دامن سے کاریزیں (واہیاں) بھی زرکثیر خرچ کر کے نکالی گئی ہیں۔ ۔ 1932سے سکھر کے مقام سے دریائے سندھ سے نکالی گئی نہر کیر تھر شاخ ڈھوری سے بھی اراضیات سیراب ہوتی
ہیں‘‘۔
میر عبدالعزیز کرد یوں کہتا ہے :’’بلوچستان میں مگسی قبیلہ ایک مشہور قبیلہ ہے ، جو ریاست قلات کے بلوچ نیشنل کانفیڈریشن کے ساتھ وابستہ ہوتے ہوئے اپنے تمن اور جاگیر کے داخلی نظام میں دوسرے قبائل کی طرح خود مختار ہے۔
اب اس خود مختار علاقے اور آمدن کا نظم ونسق آل انڈیا بلوچ کانفرنس کے سب سے فعال ممبر اور لیڈر نے سنبھالنا تھا۔ ایک ایسے شخص نے ، جس کے پاس تبدیلی کا ایجنڈہ تھا۔ اور 4روزہ جیکب آباد کانفرنس ابھی ابھی ختم ہوئی تھی۔
پچھلے صفحات کے مطالعہ کے بعد اب ہم جانتے ہیں کہ یہ لوگ ’’بلوچستان سطح ‘‘پر کیا چاہتے تھے۔ ہمیں معلوم ہے کہ انہوں نے قلات کی حکومت میں بڑے پیمانے پر اصلاحات نافذ کرانے کی مہم شروع کر دی تھی ۔گو کہ یہ کوئی نیا اقدام نہ تھا ۔ اس عمل کا ارادہ تو وہ بہت پہلے ہی کر چکے تھے ۔چنانچہ سال1931 میں مشہورِ زمانہ پمفلٹ ’’شمس گردی‘‘ ہی میں انجمن اتحادِ بلوچاں نے نوابزادہ کی رہنمائی میں حکومت کے آئندہ نظام کو ان الفاظ میں پیش کیاتھا:
’’ہم قلات میں ایسا حکمران چاہتے ہیں جو تخت نشینی کے فوراً بعد آئینی اور ذمہ دار حکومت کا اعلان کرے اور جہاں ایک اسمبلی قائم ہو۔ جس میں لوگوں کے منتخب کردہ نمائندے ہوں۔ چار مقامی اور لائق آدمیوں پر مشتمل مستقل کابینہ بنے۔ جس کا سربراہ ذہین اور مصلح ہو۔ محکموں کی تقسیم اس نہج پر کی جائے:
وزیراعظم:محکمہ داخلہ اور انڈیا گورنمنٹ کے ساتھ تعلقات ،
وزیر مال :محکمہ مالیات،
وزیراطلاعات، محکمہ انصاف،وزیر رفاہِ عامہ،تعلیم صحت اور زراعت،
چوتھا وزیر ریاستی افواج ،پولیس،قانون اور نظم و نسق کا انچارج ہو۔۔۔
یہ کابینہ اسمبلی کے سامنے جواب دِہ ہو تاکہ سرشمس شاہ کے عہد کی بدعنوانیاں دہرائی نہ جاسکیں‘‘۔
میر یوسف عزیز اور اُس کے تحریکی رفقا ریاست میں ایک منتخب حکومت کا قیام چاہتے تھے۔ اس کے نتیجے میں ایک کابینہ بنتی جو عوام کے سامنے جوابدہ ہوتی۔اس کے مطلب بہ یک وقت دو تھے: سرداری جرگہ نظام کا خاتمہ ، اور برطانوی حکمرانی کا خاتمہ۔
ہم جانتے ہیں کہ اِن ساری اصلاحات کے لیے ایک اچھا خانِ قلات چاہیے تھا۔ یوسف اور اس کے کامریڈوں نے اس بارے میں اعظم جان کی تقرری کے لیے زبردست مہم چلائی ۔ انہیں بالآخر زبردست کامیابی ہوئی اور اعظم جان خانِ قلات مقرر ہوا۔گو کہ میر اعظم جان کی تخت نشینی میر یوسف علی خان اور اس کے رفقا کی بڑی کامیابی تھی، یہ الگ بات ہے کہ تاریخی قانون اور اٹل حقیقت کی پیروی میں، اعظم جان نے خان بن جانے کے بعد انجمن کو نظر انداز کرنا شروع کردیا ۔ اس نے ایک ذمہ دار اور نمائندہ حکومت قائم کرنے کا اپنا وعدہ بھلا دیا۔ چنانچہ انجمن اپنی ساری خوش فہمی کو جھٹک کر پھر سے سیاسی کام میں جت گئی۔
نئے خانِ قلات میر اعظم جان سے انجمن کو جو توقعات تھیں ،وہ پوری نہ ہوئیں ۔اُس کے اور انجمن کے بیچ فاصلے بڑھتے گئے ۔ خان نے اپنے مدد گار انجمنی دوستوں کی آدرشوں کو صرف ترک ہی نہ کیا بلکہ وہ اُن کو سزا کی دھمکیاں بھی دینے لگا۔
اور انجمن کو ایک بار پھر اپنے رومانٹک نقطہِ نظر کا قبلہ درست کرنا پڑا۔ ویسے تو یہ قبلہ حتمی طور پر آج تک درست نہ ہوا۔ اور ہم زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر انفرادی یا اجتماعی طور پر بہر حال ایک ہیرو، ایک مشکل کشا کی آرزو کرکے اُسے الفاظ اور دلائل کا جامہ پہنا کر ایستادہ کرتے ہیں، پھر اس کی پرستش ہوتی ہے اور بہت دیر بعد ہماری نیک خواہشات کو کمر توڑ ٹھوکر لگتی ہے اور ہم پھر سنبھلتے ہیں ۔لیکن اس دوران بہت سے سادہ لوح لوگوں کو ہم گمراہ کرچکے ہوتے ہیں۔ اورروایات و رواجوں کی پڑھائی ہوئی ہماری اپنی پٹّی اُن کے دل سے اترتے نہیں اترتی۔ حالانکہ ہمارے آباتک یہ جان گئے تھے کہ سیاست میں ہیرو اگر ہمارے رومانٹک خیالات کے لیے ہی باعثِ تقویت ہیں تو وہ سامراجی عزائم کی تکمیل کی ضرورت بھی ہیں۔
چنانچہ جب اپریل1932 کو میر اعظم جان کی تاج پوشی ہورہی تھی تو ایک جانب انجمن کے ہمارے اکابرین خوشیاں منارہے تھے اور دوسری جانب تاجِ برطانیہ کا نمائندہ اور وائسرائے ہند لارڈولنگٹن اسے بتارہا تھا کہ، ’’ آپ صرف ریاستِ قلات کے حکمران نہیں ہو بلکہ ایک قدیم اور مضبوط کنفیڈریسی کے سربراہ بھی ہو۔ اس لیے یہ مناسب ہے کہ آپ اپنے سرداروں کے صلاح و مشورے سے اور انہیں ساتھ ملا کر کام کرو ، ان کے حقوق کی عزت کرو اور اپنے وقار کو برقرار رکھو۔‘‘
ان نیک مشوروں کے علاوہ اب ملاحظہ کریں کہ ایک عالمی سردار ایک علاقے کے سردار کی پیٹھ کس طرح تھپکاتا ہے: ’’ ہر حکمران کو مشکل اور پریشانی کے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر خدانخواستہ ایسا وقت پہنچے، توآپ کو یقین کرنا چاہیے کہ ہمارے افسر آپ کو ہر قسم کی امداد اور مشورے دیں گے۔ مطمئن رہیے کہ میں بذاتِ خود ہمیشہ آپ کی ریاست کے معاملات میں مستقل اور گہری دلچسپی لیتا رہوں گا‘‘۔
یوں آہستہ آہستہ اعظم جان، خان بن گیا اور انجمن واپس اپنی سیاسی اوقات میں لوٹ آئی ۔
دوسری طرف یوسف عزیز مگسی ہے ۔ جس کے بارے میں اُس کے قریبی ساتھی مولانا عبدالکریم نے لکھا:
’’ ایک شخص اپنے ملک وقوم کی اصلاح کا درد لے کر اُٹھتا ہے اپنے جذبہ جدت کو لے کر اپنی قوم کو روحانیت سکھلاتا ہے۔ مواخات ومواسات کے سبق پڑھانا ہے ۔ مساوات ، اتفاق اور یک جہتی کی روح پھونکتا ہے ۔ اور ان کو اسلام کی سچی اور کفر سوز تعلیم سے آگاہ کرتا ہے ۔ پُرانے مذموم اور شرع شریف کے برعکس ومنافی رسومات کو مٹانا چاہتا ہے ،ا علائے کلمتہ الحق کو اپنا فرض اولین سمجھتا ہے ، اور ایک ایسی فضا میں جو اپنے سات وجہات کی طرف سے کفروشرک کی ریشہ دوانیوں اور اباطیل کی نیگامہ آرائیوں سے مکدار اور ایک ہولناک منظر بنی ہوئی ہے ، حق وصداقت کا بول بالا کرتا ہے ، اور وہ اپنے مقاصد محمود ہ کی کامیابی کیلئے حتی الوسع ہر ممکن قربانی کرتا ہے۔ قوم کو ایک طویل اور اعضا شکن خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے اپنی جان پرطرح طرح کے مصائب اور اپنے نفس پر شدائد وتکالیف برداشت کرتا ہے۔ مختصر یہ کہ یہ مجاہد، ایک ایک لمحہ اپنے ملک وقوم کے بہبود وفلاح کی محویت میں گزرتا ہے‘‘ ۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے