ایسی صورت بنانا جو عورتوں کی دلکشی کا سبب تھی ‘‘۔ گوٹیر نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’ وکٹر ہیو گو کا شریف انسانوں کی طرح سامنے آنا رومانویوں کی نظروں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا تھا‘ اور وہ باہمی بات چیت کے دوران اس عظیم شہرہ آفاق شاعر کی کمزوری پر اکثر ملامت کرتے تھے جو ان کے نزدیک اسے ’’شریف انسانوں حتی کہ بورژوا لوگوں کا ’’ہم وضع بنائے ہوئے تھا‘‘ ۔یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ عام وضع کو چھوڑ کر کوئی مخصوص وضع اختیار کرنا اس مخصوص دور کے سماجی رشتوں کا عام طور پر اظہار ہے ۔اس مسئلہ کو ایک دلچسپ سماجی تحقیقات کا موضوع بنایا جاسکتا ہے۔
نوجوان رومانویوں کا بورژوا کے متعلق یہ طرز عمل افادی آرٹ سے بغاوت تھا ۔ان کی نظروں میں آرٹ کا مفید بننا اسے بورژوازی کا ہتھیار بنانا تھا جس سے وہ بے انتہا نفرت کرتے تھے۔ گوٹیر کے مفید آرٹ کے خلاف زور شور سے مذاق اڑانے اور حملہ کرنے کی وجہ یہ ہی ہے جس کا ذکر کیا جاچکا ہے کہ اس نے آرٹ کی افادیت کے قائل ادیبوں کو ’’گدھو، گٹھیا کے مریضو،اور فاطر العقلو‘‘ کے خطابات سے نواز ا۔ اور اس سے اس تناقص فکری کی بھی وضاحت ہو جاتی ہے کہ اشیا اور فردجو خدمت انجام دیں اس کے سبب اس کی محبت نفرت میں بدل جاتی ہے حقیقتاً یہ تمام حملہ آوری اور تناقص فکری پشکن کے اس خیال کا مثنیٰ ہیں:
باتونی ریاکارودفع ہوجاؤ
امن پسند شاعر کو تمہارے انجام کی کیا پروا
پارناسی (انیسویں صدی کے فرانسیسی شاعروں کا گروہ) اور ابتدائی زمانے کے فرانسیسی حقیقت پسند گنکورٹ براوران فلوبرٹ وغیرہ بھی اس معاشرے سے جس کے گھیرے میں وہ تھے بے انتہا نفرت کرتے تھے ۔وہ لعنتی ’’بورژوازیوں ‘‘ کو ہر وقت گالیاں دیتے رہتے تھے ۔اگر وہ کچھ لکھتے اور چھپواتے تھے تو اس کے متعلق یہ بات وثوق سے نہیں کی جاسکتی کہ وہ عام لوگوں کے لیے ہوتا تھا۔ بلکہ چند مخصوص لوگوں کے لیے ہوتا تھا جیسا کہ فلوبرٹ نے اپنے ایک خط میں لکھا ہے ۔ ان کا خیال تھا کہ ایک مہمل قسم کا ادیب ہی پڑھنے والوں کے وسیع حلقے میں مقبول ہوسکتا ہے۔ لی کونٹے ڈی للی کا یہ دعوےٰ ہے کہ کسی ادیب کی مقبولیت بحیثیت دانشور اس کی بے مائیگی اور گھٹیا پن کی دلیل ہے۔ اس امر کے اضافے کی ضرورت نہیں معلوم ہوتی کہ پارناسی رومانویوں کی طرح’’آرٹ برائے آرٹ‘‘ کے نظریئے کے زبردست حامیوں میں سے تھے۔
اور بھی بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں مگر وہ بالکل غیر ضروری ہیں کیونکہ یہ بات بالکل کھل کر سامنے آگئی ہے کہ آرٹ برائے آرٹ کا نظریہ قدرتی طور پر اسی وقت ادیبوں شاعروں اور آرٹسٹوں کے ذہن میں ابھرتا ہے جب وہ اپنے گردوپیش کے معاشرے کے دباؤ میں ہوتے ہیں مگر یہ بات غلط نہ ہوگی اگر اس بے سرے پن کی مزید وضاحت کردی جائے۔
اٹھارویں صدی کے خاتمے کے قریب کے اس دور میں جس کے بعد عظیم انقلاب فرانس کے ترقی پسند آرٹسٹ اس وقت کے دور کے ’’معاشرہ‘‘ کے دباؤ میں تھے ڈیوڈ اور اُس کے دوست پرانے نظام کے دشمن تھے اور عدم مطابقت سمجھوتے کے لیے ناقابل عمل اور ناممکن تھی۔ ڈیوڈ اور اس کے دوستوں کی اس پرانے نظام سے عدم مطابقت رومانویوں کے بورژوا معاشرے سے عدم مطابقت کے مقابلے میں نہایت وسیع اور گہری تھی۔ اسی لیے ڈیوڈ اور اس کے دوست پرانے معاشرے کا خاتمہ چاہتے تھے۔ جیسا میں بار بار کہہ چکا ہوں گوٹیر اور اس کے ہمنوا بورژوا رشتوں پرمعترض نہ تھے وہ تو صرف اتنا چاہتے تھے کہ بورژوا نظام آبروباختہ بورژوا عادات پیدا کرنا بند کردے ۔ڈیوڈ اور اس کے دوست بخوبی جانتے تھے کہ پرانے نظام کا خاتمہ کرنے والے انقلاب کے پیچھے تھرڈ اسٹیٹ کے دستے صف بستہ چلے آرہے ہیں اور جلد ہی بقول ابیّ سی یس اس کے نتیجے وہی سب کچھ ہوں کے چنانچہ ان کے پرانے نظام سے عدم مطابقت نئے معاشرے کی ہمدردی بن گئی تھی جو پرانے معاشرہ کے بطن میں اس لیے پرورش پاچکا تھا کہ اس کی جگہ لے ۔ اس کے برعکس رومانویوں اور پرنا سیوں میں اس قسم کی کوئی بات نہیں پاتے ۔وہ اپنے دور کے فرانسیسی معاشرے میں نہ کسی قسم کی تبدیلی کے متوقع تھے اور نہ چاہتے تھے کہ سماجی نظام بد لا جائے۔ اسی کا سبب ہے کہ ان کی اپنے ماحول سے عدم مطابقت مہمل اور بیکار تھی ۔اسی طرح پشکن بھی اس دور کے روس میں کسی تبدیلی کی توقع نہ رکھتاتھا۔ مزید برآں کہا جاسکتا ہے کہ نکولس کے دور میں وہ چاہتا ہو کہ کسی قسم کی تبدیلی نہ ہو یہی وجہ ہے کہ سماجی زندگی کے متعلق اس کا نقطہ نظر قنوطیت پسندانہ تھا۔
اب میں سمجھتا ہوں کہ اپنے پچھلے نتیجے کو وسعت دے کر کہوں : ’’آرٹ برائے آرٹ‘‘ کے نظریئے کو اس وقت قبول کیا جاتا ہے جب آرٹسٹ اور وہ لوگ جو آرٹ سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں سماجی ماحول کے دباؤ سے بری طرح پسے ہوئے ہوں۔ مگر اس وسعت سے بھی بات پوری نہیں ہوتی ’’چھٹی دہائی‘‘ کے لوگوں کی مثال موجود ہے جو دلیل وبرہان کے قائل تھے اور ڈیوڈ اور اس کے دوست بھی اس پر کم یقین نہ رکھتے تھے ۔ اس (مثال) سے واضح ہوتا ہے کہ نام نہاد افادی آرٹ کی یہ خصوصیت کہ جہاں کہیں سماجی تصادم وقوع پذیر ہو اور پھیلے ہوئے معاشرے کا خاصا حصہ اور لوگ کم وبیش تخلیقی آرٹ سے دلچسپی رکھتے ہوں ، زندگی کے مظاہر پر فیصلہ صادر کرے جس سے پرمسرت بیقراری وابستہ ہوتی ہے
یہ بات کس حد تک درست ہے ؟۔مندرجہ ذیل حقائق سے اس کی مکمل تصدیق ہوتی ہے۔ جب فروری 1848کا روح افزا انقلاب برپا ہوا ایسے کتنے ہی آرٹسٹوں نے جو ’’ آرٹ برائے آرٹ‘‘ کے نظرئیے کے قائل تھے نہایت سختی سے اسے مسترد کردیا ۔حتیٰ کہ اس بودیلیر نے جسے گوئٹر نے ’’آرٹ برائے آرٹ‘‘ کے زبردست حمایتی کے طور پر مثالاً پیش کیا تھا اورآرٹ کی آزادی کامل جو مبلغ تھا انقلابی رسالہ ’’لی سلیوٹ پبلک ‘‘جاری کیا ۔یہ صحیح ہے کہ اسے جلد ہی بند کردیا گیا لیکن1856تک بودیلیئر اسی مسلک پر قائم تھا ۔چنانچہ اس نے پیری ڈو پونٹ کی کتاب’’چان سونز‘‘ پر جو پیش لفظ لکھا اس میں اس نے آرٹ برائے آرٹ کے نظریئے کو طفلانہ قرار دیا اور اعلان کیا کہ آرٹ کا لازماً سماجی مقصد ہے لیکن جب جوابی انقلاب فرانس میں آیا تو بودیلیر اور اس جیسے دوسرے آرٹسٹ آرٹ برائے آرٹ کے ’’طفلانہ‘‘ نظریئے کی خدمت کرنے لگے۔’پارانا سیوں‘‘ کے مسقتبل کے فاضلین میں سے لی کونٹے ڈی لی سلے نے بڑی نمایاں طور اس رجعت (پسپائی) کی نفسیاتی اہمیت کی وضاحت اپنی منظومات کے دیباچے میں جس کا پہلا ایڈیشن 1852میں شائع ہوا ۔اس نے کہا کہ شاعری اب شجاعت کے کارناموں یا سماجی اقدار کی تصویر کشی نہیں کرسکے گی کیونکہ ادبی ابتذال کے تمام دور میں وہ حقیر ذاتی ہیجانات کو پیش کرتی رہی ہے ۔اب ان کی متبرک زبان کوئی سبق دینے کے قابل نہیں رہی ہے۔ شعراء سے خطاب کرتے ہوئے اس نے کہا کہ وہ انسانی نسل جس کے کبھی وہ استاد تھے اب ان سے زیادہ تجربہ کار ہوگئی ہے۔ مستقبل کے پارناسیوں کے الفاظ میں شاعری کا فریضہ ان کو ’’ معیاری زندگی‘‘ دینا تھا جو ’’حقیقی زندگی‘‘ سے محروم تھا ۔ یہ گہرے الفاظ آرٹ برائے آرٹ کے نظریئے کے تمام نفسیاتی رازوں کو بے نقاب کر رہے ہیں۔ ہم کو بہت سے موقعوں پر لی کونٹے ڈی لیلے کے ان الفاظ کی طرف جانا ہوگا۔
سوال کے اس پہلو کو ختم کرتے ہوئے میں اس بات کابھی ذکرکرنا چاہتا ہوں کہ سیاسی مقتدرین آرٹ کی افادیت کے نقطہ نظر کو ہمیشہ اولیت دیتے رہے ہیں مگر یہ اولیت وہ اس حد تک دیتے ہیں جس حد تک آرٹ ان کی خدمت کرے اور یہ بات جان لینی چاہیے کہ ان کا مفاد یہ ہے کہ ہر نظریہ ان کے مقصد میں کام دے اور سیاسی مقتدرین بعض دفعہ انقلابی بھی ہوتے ہیں اور زیادہ تر قدامت پسند اور رجعت پسند تک ہوتے ہیں۔ یہ تصور کر لینا غلط ہوگا کہ انقلابی یا ترقی یافتہ ذہن کے لوگ ہی اسے پسند کرتے ہیں ۔ روسی ادب کی تاریخ سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ ہمارے’’ محافظین‘‘ بھی اس سے احتراز نہ کرتے تھے جس کی چند مثالیں موجود ہیں ۔دی ۔ ٹی نر زہنی کے ناول ’’اے رشین گل بلاس‘‘ کے ابتدائی تین حصے یا کاونٹ گوریلا سمونووچ چستیا کو وکی مہمات1814 میں شائع ہوئی وزیر تعلیمات عامہ کاونٹ راز ہوسکی کی ہدایت پر فوراًممنوع قرارپائی ۔
اس نے اس وقت آرٹ اور زندگی کے سوال پر مندرجہ ذیل اظہار خیال ضروری سمجھا:
’’اگر چہ تمام مصنف برائی کے خلاف فی الحقیقت جدوجہد کرتے ہیں لیکن وہ اس طرح اسے پیش کرتے ہیں جس کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی کہ نوجوانوں کے لیے وہ برائی کی ترغیب کا کام دیتا ہے بہتر ہے ایسا کیا ہی نہ جائے ۔کسی ناول کی ادبی قیمت کیسی کچھ ہو اس کے چھپنے کی جب ہی اجازت دی جائے گی جبکہ اصلاحِ اخلاق اس کی حقیقی وجہ بنے۔‘‘
صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ راز موسکی آرٹ برائے آرٹ پرا یمان نہیں رکھتا۔
نکولس اول کے مصاحب اور حاشیہ نشین بھی اسی انداز سے اس مسئلہ کو دیکھتے تھے جو بلحاظ اپنی پوزیشن کے مجبور تھے کہ اس مسئلہ پر اظہار خیال کریں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ بیکنڈروف نے پشکن کو اسی راستے پر چلنے کی ہدایت کی ۔ نہ ہی او سٹروسکی نے اربابِ حکومت کی خواہش کو ٹھکرایا۔ مارچ1850 میں جب مزاحیہ ناول ’’ دیوالیہ ‘‘ شائع ہوا اور محبانِ ادب نے اس بات کا اندیشہ کیا کہ یہ تاجر طبقہ کو مخالفت پر آمادہ کرسکتا ہے تو اس وقت کے وزیر تعلیمات عامہ نے علاقہ ماسکو کے تعلیمی حلقے کے نگران کو حکم دیاکہ نوجوان ڈرامہ نویس کو طلب کرے اور ’’اسے سمجھائے کہ ذہانت اور قابلیت کا مفید کام یہ ہی نہیں ہے کہ قابلِ نفرت گناہ کی تصویر کشی کی جائے بلکہ اس کی مذمت بھی کی جائے اور مجرمانہ خیالات اور افعال کو روکنے کی تعلیم دی جائے جس کے نتیجے میں بدی کی وہ جڑیں الٹ جائیں جو مجرمانہ خیالات اور افعال کو روح پر سوار کر دیتی ہیں اور آخر یہ کہ عقائد مذہبی کو جن کی سماجی اور نجی زندگی میں بہت ضرورت ہے اس طرح مستحکم کیا جائے کہ وہ دنیا سے بُرے افعال کا خاتمہ کردیں‘‘۔
خووزار نکولس آرٹ کو ’’اخلاقیات ‘‘ کے نقطہ نظر سے دیکھتا تھا ۔جیسا کہ ذکر کیا جاچکا ہے کہ وہ بینکینڈروف کی اس رائے سے متفق تھا کہ پشکن کو پرچا کراس ڈھب پر ڈالا جائے اس نے اسٹرووسکی کے ڈرامے ’’دوسروں کی مصیبت میں کام آنا‘‘ جو اس وقت لکھا جب وہ سلووفائز گروہ کے زیر اثر آ چکا تھا (جوزار شاہی کے برقرار رکھے جانے اور روس کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر ترقی دینے کے نظریئے کے قائل تھے) اور شاہانہ دعوتوں میں بعض دوستوں کے سہارے سے شامل ہوتا تھا تاکہ وہ پیٹر کے تمام کام کو (جو روس کو مغربی انداز سے ترقی دینے کا محرک تھا) ختم کردے گا ۔زار نے اس کے اس ڈرامے کے متعلق جو ایک لحاظ سے نصیحت آمیز ہے تعریفاًکہا ’’یہ کوئی ڈرامہ نہیں ہے سبق ہے‘‘۔ بہت زیادہ مثالیں نہ پیش کرتے ہوئے میں اپنے کو دوحقائق تک محدود رکھوں گا۔ جب این پولیوئی کے میگزین ماسکووسکی ٹیلیگراف میں کوکولنک کے نام نہاد’’محب وطن‘‘ ڈرامے ’’بلند ترین ہاتھ جس نے وطن کو بچالیا‘‘پرنا قدانہ تبصرہ شائع ہوا تو میگزین نکولس کے وزراء کی نظروں میں قابل لعنت بن گیا اور اسے بند کردیا گیا ۔لیکن جب خود پولووئی نے وطن پرست ڈرامہ’’ روسی بحریہ کے دادا جان اور اِگول کن تاجر‘‘ لکھا تو پولیو وئی کے بھائی نے کہا کہ زار اس کی فنی قابلیت پر خوش ہوا اور کہا’’مصنف کی قابلیت واقعی عطائے الٰہی ہے۔ وہ اور لکھے اور لکھتا رہے۔‘‘ پھر مسکراتے ہوئے کہا’’ہاں لکھے مگر میگزین شائع نہ کرے‘‘۔
یہ سمجھنا کہ آرٹ کے متعلق یہ طرزِ فکر کچھ روسی حکمرانوں تک ہی محدود تھا غلط ہے ۔ فرانس کا لوئی چہاردہم اس بات سے کم متفق نہ تھا کہ بلا مقصد آرٹ کا نظریہ نادرست ہے ۔آرٹ کو لازماًاخلاقی تعلیم کا ایک ہتھیار ہونا چاہیے۔ چنانچہ اُس کے دور کے تمام ادب میں یہ یقین سرایت کئے رہا ہے ۔ اسی طرح نپولین اول آرٹ برائے آرٹ کے نظریئے کو قابل نفرت ’’خیال پرستوں کی ایجاد سمجھتا تھا۔ وہ بھی یہی چاہتا تھا کہ آرٹ اور ادب کو اصلاحِ اخلاق کے لیے استعمال کیا جائے اور اس خیال پر عمل کرانے میں وہ بڑی حد تک کامیاب تھا ،جیسا کہ اس دور میں وقتاً فوقتاً ہونے والی تصویری نمائشوں سے ظاہر ہوتا ہے جس میں سلطنت کے سرداروں کی جنگی مہمات کی تصویریں پیش کی جاتی رہیں۔ اس کا بچونگڑا بھانجہ (یا بھتیجا) بھی اسی کے نقش قدم پر چلا ۔گو اسے کم کامیابی ہوئی۔ اس کی بھی یہی کوشش تھی کہ آرٹ اور ادب اخلاق کی خدمت کریں ۔نومبر 1852میں لاین کے پروفیسر لپارڈے نے بونا پارٹ کی آرٹ کو اس رُخ پر ڈالنے کی کوشش کے متعلق لکھا کہ وہ وقت قریب ہے کہ ریاستی مُلاں انسان کو فوجی ضابطے میں کس دیں گے ۔پھر اقتدار کی حکمرانی اس طرح ہوگی کہ کوئی ادیب معمولی سے عدم اطمینان کے اظہار کی جرات نہ کرسکے گا۔
’’سورج کی دھوپ ،بارش ،گرمی اور سردی سے مطمئن ہوجانا چاہیے۔ سرخ سفید بن جاؤ ۔میں خمیدہ دبلے پتلے انسان سے نفرت کرتا ہوں ۔جو بولتا نہیں وہ اس کا مستحق ہے کہ اسے تختے پر ڈال کر کیلوں سے ٹھونک دیا جائے‘‘۔
قارئین کی اطلاع کے لیے مجھے یہ بتانا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ لپارڈے کو اس کی اس پرجوش ظریفا نہ تنقید کے سبب پروفیسری سے مستعفی ہونا پڑا ۔نپولین سوئم کی حکومت نے روایتی ملاؤں کا مذاق اڑانا برداشت نہیں کیا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے