مجھے شاہی بازار میں رہنے دیں

ابھی ابھی وہ سیمیں تن
بالکونی پر آئی
تو وقت کے پھیرے
ازخود پرکار کی صورت
دائرہ در دائرہ
پھیل رہے تھے
اور کہیں اس
وقت کے نین نقش میں ایسے
سیمیں تن کی مہک ان
گلیاروں سے
کمل روپ کی مہکار پہن کر
یوں پھیل رہی تھی کہ
اوپر کسی بالکونی میں آواز اک آئی
بیٹا! ذرا سُن لیں
جی اماں! ۔
یہ ٹوکری لے کر کچھ چیزیں شوکت کے دکاں سے لے کر بھیجیں جی اچھا،
کیا دیکھتا ہوں کہ پہناوا بھی مجھ سے گویا ہے
اور گاؤن بھی اس
پریت نگر کا من بھاتا ہے
جب بالکونی کے نیچے گزرتا
تو سامنے پیر و جواں کے من بھاتا پرتو
اکثر دیکھے
اور یونہی مَیں کہہ اٹھتا کہ
ابھی لاتا ہوں
تب سے یہ منظر
بالکونی، دالان، بلند عمارتوں کے نین نقش کبھی اُس کی
آون جاون کو
منور کرتے
اور مَیں کسی کونے میں دبک کر
بیٹھتاہوں
ایک قصہ گو کی طرح
گویا ہوتا ہوں اور اس بیچ
باقیات میں سے جو کچھ
حصے میں آیا
قصہ پن جینے کو
کریمک ہوٹل میں لٹکتی پرانی قندیل
ایک چھوٹے سے کباٹ میں کچھ
بوسیدہ ورق
اس میں کچھ مسطور بھی ہے
پر خواب شکستِ خواب کی صورت
ایک تسبیح جو کم پڑتے دانوں کی اذیت
سہہ نہ پائی سامنے بیٹھے
بے سطر لبوں سے
بے سمت نظروں کی تصویروں میں خود کو
کھوج رہے تھے
یونہی دفعتاً کریمک کی آواز جو آئی
سب پر سکتہ طاری ہوئی
کہ یہ اب کے ہم میں کیسے
ان کو تو مرے ہوئے عرصہ بیت گئے
پر ایک بات سمجھ میں آئی کہ
یہ جو ایک ٹیپ ریکارڈر ابھی اسی کیسٹ کے ساتھ لگا ہوا ہے
یہ تو ابھی وہ ڈال کے گئے تھے کہ لال بخش پان والے کی دکاں پر چائے دے کر آتا ہوں
پر کوئی ریل نہ بدلے
اور مکیش کی آواز نے سارنگا کے بھیتر جھانکا تو
دانے بھی ساتھ ہی ٹوٹ گرے اور
غفور کے چہرے پر دکھ کی جھالر
آڑھی ترچھی لکیر کی صورت
اور سماوار کا دھواں پہن کر
برخود جینے کے احساس کو لے کر
جاگ رہا ہے۔

نفی اندر نفی

مَیں خود کو چھوڑ آیا ہوں
کسی انجان رستے پر
وہ رستہ میرے آبا کے
زمانے سے بھی پہلے کا
اگر کچھ سلسلہ ہوتا
تو اُن کی انگلی پکڑے
خواب دروشم
یوں سفر کرتا
مگر یہ سلسلہ کچھ اور ہی منظر کا جویا ہے
لِپٹ کر میرے قدموں سے
کسی پگ چاپ کی صورت
چلے جانے کی بس یونہی
ہدایت مجھ کو دیتا ہے
کہ یہ تو سلسلہ ہے تیرے
من بھیتر چُھپے اُس
بے سمت رستوں کی
کہیں شاید ملے اس بیچ
مجھے وہ ایلیا درپن
اُسے چھو لوں لمحہ بھر جی لوں
اور یہ مقدس آگ پہنوں
دُھل کے پھر نکلوں اِسی بن باس میں آخر
رقم کر لوں یہ تنہائی
جو تنہائی کو کھا جائے۔

A poem of my inner self journey 

کون نگر ہے میرا
ہم یہ جان پاتے
تو جیت لیتے خود کو شاید
لیکن خود کو سَر کرنے میں
مَیں نے کتنی صدیوں کے دکھ
ایک ہی شبد میں
ارپن کرکے
گھول کے پی لیں………….
امرت رس کی صورت مجھ کو
سماْن ملا اِس
کُمبھ کے جیون گیان سے گزرے
کون یہ پھر چاہت کی اگنی
گھول کے پی لے
اور تبھی خود
انتم سادھنا اوڈھ کے جی لے
جیسے میرے
اپنے پن نے
خود کو لانگنے کی دُھن میں
من برہما کا
چُھو کر دیکھا
اور ابھی تک سوچ میں ہے یہ
جانے کون نگر میرا ہو
اپنا کہنے کی جسے پھر
اِس بالک کو
شبد ملے

گواچن سے پرے بھی کچھ ہے؟

ہم نا رضامندی کی پیدائش میں
پیدا ہوئے ہی نہیں
اگر ہم پیدا ہوتے
تو ہماری حالت کچھ اور ہوتی
جانے یہ بات کیونکر تاریخ میں
یوں لکھ دی گئی
کہ جاؤ
آج تم پر کوئی گرفت نہیں
تم سب آزاد ہو
لیکن آج تک مَیں
آزادی ایسے شبد کی معنویت سے آشنا نہ ہو سکا
اور نہ ہی اس کی سرشاری کو جی پایا ہوں
محض ایک بوسے کی سکرات میں جینے والے لوگ ہی دیکھ رہا ہوں
جو خود سے بھی یہ سچ کہنے کی حسرت میں پیدا ہوئے نہیں
اور اس خوف میں ہیں
کہیں کوئی یہ کہہ کر گرفت نہ کرلے
اور اس بابت یہ نہ کہہ جائے
یہ تم نے کیسے انگلی میں سگریٹ لینے کی چنتا پال رکھی ہے
اور دھوئیں کے مرغولے میں خود کو
زمان و مکان کی بندش سے پہلے
آنول تلاشنے نکلے ہو
اور کس کے رَحم کی اذیت میں دن بھوگ رہے ہو
یہ سب تو ہونا تھا اک دن
کیوں جلدی میں سب کچھ غارت کرنے میں
اپنا گیان لیے پھرتے ہو
جوکہ اب تک
بھیتر سے نکلے نہیں

یہ معمول میں شامل ہے 

ایک دن کیا دیکھتا ہوں مَیں
چوہے بلی نے
باہمی مشاورت سے
ایکا کرکے جینے کی بنیادیں رکھ لیں
میرے شہر میں نمی کچھ ایسے پڑتی ہے
کہ لوگ بھی اس منظر میں خود سے
جینے کی تدبیریں سوچنے لگتے ہیں
اور حیوانی جھلک میں نبھا کے پرتو
روز
صبحِ دم
دیکھا کرتے ہیں
اور مَیں کبھی اس سوچ میں پڑتا ہوں کہ
عصر میں جینے والے لیکھک
کیسے طاعونی فکر میں
شبد لکھا کرتے ہیں
چوہے بن کر جینے میں
اور زمین کھود کر
ہر شئے کی مانند
بس کُترنے کی لت میں یونہی
چوہے بلی کی سنگت کے موافق
لفظ اور معنی کے افتراق میں ایسے
سیندھ لگائے
اور کُترنے کے عمل میں جیسے
منقلب ہو جاتے ہیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے