سفر

تھکے تھکے سے پاؤں
دْور منزلوں کے سلسلے عجیب سے
وہ سامنے پڑاؤ بھی
مگر نہ جانے کیوں ہر ایک بار پھیلتے رہے ہیں
سامنے نگاہ کے
یہ رنگ ہیں کہ راستے
بڑھی ہے لہر کاٹتی ہے کلبلاتی ڈوریاں
یہ لہر درد کی ہے یا کچھ اور ہے
عجیب ہے
تھکے تھکے سے پاؤں
اندھے راستوں پہ بیکراں مسافتیں
بڑھاؤ ہمتیں، کوئی بھی گیت چھیڑ دو مگر رکو نہیں
کٹے پھٹے وجود کو کسی بھی تال پر چڑھاؤ
دھڑکنوں کو جوڑ لو
یہ گیت، تال، دھڑکنیں
یہ تیرگی کا، روشنی کا فرق اور فاصلہ عجیب ہے
یہ میں ہوں میری منحنی پکار سن کے
ڈولنے لگا ہے یہ جہان یا رہا ہے وہم دیر سے
پکارتے رہے ہیں میرے ساتھ
میرے لوگ میرے ساتھ ہیں
کہ چل رہے ہیں گرد رنگ راستے
اْمڈ رہی ہیں بدلیاں
یہ گاڑھے گاڑھے بادلوں کے غول
گرد راستوں کا میل بھی عجیب ہے
میں قید ہوں کسی گھڑی کی پھیلتی خلاؤں میں
کہ تیرتا ہے وقت ڈولتا رہا ہے زندگی کے ساتھ ساتھ جسم کی گپھاؤں میں
عجیب ہے
یہ وقت، درد، راستہ
یہ جسم بھی یہ جان بھی
یہ زندگی کا سلسلہ
عجیب ہے 133

رائیگانی

سحر دم دریچوں پہ سورج کی دستک سے جاگی
بہت دھیمے ،مدھم سروں میں
پرندوں کی چہکار
خوابیدہ پیڑوں تلے
سانس لیتی حرارت کو چھو کر
پگھلنے لگیں اوس کی چند شفاف بوندیں
اچٹتی ہوئی نیند کی شاہزادی کی کروٹ سے
خوابوں بھرا طشت الٹا
کھلی ڈوریاں رات کے شامیانے کی
دْکھتے ہوئے جسم پہنے
زمیں زاد نکلے
زمیں زاد نکلے
چلے طے شدہ زنگ کھائے ہوئے
راستوں کی مسافت کو اوڑھے
تسلسل سے چلتی ہوئی ایک ناؤ
سمے کا بہاؤ
زمانے کا چکر
محلے، دکانیں ،مکان اور دفتر
فلک سے بھی اونچے ہیں خواہش کے ٹیلے
مگر ان کی کٹھنائیاں کون جھیلے
قدم لڑکھڑائے تودیوار کے ایک سائے میں
دو چار سانسوں کی مہلت،
حزیں جو ہوئے توبس اک آہ بھرنے کی
تھوڑی سی فرصت ،
نہیں اس سے آگے انہیں کچھ اجازت ،
زمیں زاد ،
اندھی مسافت کے راہی ،
سمے کے سپاہی ،
سروں کو جھکائے چلے جا رہے ہیں ،
کوئی دیکھتا ہے؟
کوئی سوچتا ہے؟
لگاتاررفتار،کاہش کا حاصل
ڈری ، سہمی ،الجھی ہوئی اک کہانی ،
بہاؤ میں بہتی ہوئی زندگانی ،
سو وہ بھی فقط
رائیگانی

Nightmare

بہت کالی راتوں کے گرداب سے ایک آہٹ نکل کر
دبے پاؤں بڑھتی ہے کھڑکی سے لگ کر
کوئی اجنبی شکل رونے لگی ہے
مجھے وہم ہے میں اگر اس کے رونے پہ رونے لگوں
تو یہ فوراً پگھل کر میرے ساتھ بہنے لگے گی
کوئی تھرتھراتی ہوئی سانس جمنے لگی ہے
یہ پتھرائی دھڑکن کی آواز ہے یا
کوئی دھپ سے بستر میں کودا ہے اور
خر خراتی ہوئی ایک مدھم صدا
یہ صدا ہے یا پھر میری سوئی نگاہوں کو
دھڑکا لگا ہے
لرزتی ہوئی رات کی آنکھ کھلتی نہیں ہے
کسی طور پتھرائی ساعت پگھلتی نہیں ہے
مجھے وہم ساہے اگر یہ پگھلنے لگی تو
میرے ساتھ بہنے لگے گی
اچٹتی ہوئی سسکیاں لے رہا ہے کوئی
جیسے میں اپنے بستر میں تنہا نہیں ہوں
ابھی میں نے چاہا تو ہے چیخ کر اٹھ پڑوں
پر کسی نے مری سانس باندھی ہوئی ہے
مرے پاؤں جکڑے ہوئے ہیں
کوئی اجنبی چیز ہے جو
میرے ایسے بے جان تن کو دھنکنے لگی ہے
مری سانس رکنے لگی ہے
0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے