نظم 

جیون کی گردن پہ پڑی
شکم کی تیز آری نے نوکری سکھادی
خواہشوں کے بطن سے جنمی
حاجتوں نے غلامی کی راہ دکھلادی
من کے سونے چاندی سے
پیتل کی شکلیں بنانے کا شوق
رفعتوں کو چھونے کی تمنا نے عطا کیا
لذتِ انکار کے میٹھے ذائقے میں
چرب زبانی کی کڑواہٹ
جسمِ بے سر کو ” سر ” کہنے کی عاجزی
ہاں کرنے کی عادتِ بے توقیری
در در پہ سجود کی پابندی
احساسِ محرومی نے بے ضمیری عطا کی
زیانِ مال و متاع سے خائف
عمر کی بیمار سانسوں نے
بڑھاپے کو نئے جہاں کی نوید سنادی
ہاتھ میں تسبیح تمھادی
اداکاری سکھادی

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے