یہ دل جو کائنات ہے

یہ رات جو مشقتوں کو ڈھانپتی ہے نیند کے خمار سے

گھٹن کو توڑتی ہے ایک وار سے

ہمارے دل کی رات میں دہائیاں
ہماری کائنات میں دہائیاں
گلوب کی پرات میں دہائیاں
اْتھل پْتھل
اْتھل پْتھل
ہمارے دل کی رات میں ہیں برچھیاں
لہو کے رنگ سینچتی ہیں دیویاں

ہزار دیوتاؤں کی بجھارتیں
ضعیف معبدوں کی سب عمارتیں
صدائیں ، دوسری صفوں کے گیت کار کی
خزاں کی ٹہنیوں پہ کوئی چیخ انتظار کی
مہاجروں کی ٹولیاں
وہ بیٹیوں کی ڈولیاں
وہ لالیاں وہ ہولیاں
وہ چھابڑی میں جھانجھروں کی راگنی

وہ جھالریں قدیم پیڑ کی
پکارتی ہیں دور سے
ہمارے دل کی رات میں دہائیاں
ہمارے دل کی رات میں شباہتیں

نفیس ترکِھلے ہوئے بدن کی لال ڈالیاں
بھری ہوئی شراب کی پیالیاں
مسامِ گل کی جالیاں
رگوں کے منہ سے اٹھ رہی ہیں رالیاں
ہمارے دل کی رات میں اتھل پتھل

مداریوں کے پینترے مزاج میں سما گئے
ہوس کے یہ چراغ میری سادگی بجھا گئے
حسین چاندنی کے ساتھ روز ہم نہا گئے
وہ سسکیاں اْمڈتی لذتوں کی سْن سنا گئے

طبعیتیں وہ جنگلی کبوتروں کی خواب میں
وہ ادھ کھلی سی کروٹیں شباب میں
دلوں کے اضطراب میں وصال کی وہ مستیاں

کراہتیں
ہمارے دل کی رات میں کراہتیں
کٹھن سماعتوں کے سلسلے
زبانِ خلق سے پرے
مٹھاس کی وہ بندشیں
وہ کھردری زبان کی اذیتوں کے گھاو سے
سماج کے دباو سے
ہمارے ناک کان میں اْگی ہیں لال جھاڑیاں
وہ کھولتے الاوہ پہ ہیں سونجیاں پہاڑیاں
جلن سے چیختے سمے کی خشک دھاریاں
سلگ رہی ہیں مٹھیاں
وہ ہاتھ کی کٹوریاں کرخت سی
ٹھہر چکی زوال میں یہ زندگی
ہمارے دل کی رات میں کراہتیں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے