بچی کھچی لیفٹ کی چھوٹی موٹی تنظیمیں وہ بھی عین کیپیٹل کے دل میں اکٹھے ہی کتنے لوگ کر سکتی تھیں. پھر بھی یار سب جمع ہوے ایف سکس. ایف سیون "مرکز” کی روشنی میں. بلکہ یہ جان کر خوش بھی ہوے کہ خود شاہراہ۔ دستور کا ایک حصہ بھی ہماری زد میں تھا. شرکا زیادہ تر نوجوان تھے اور مقررین جوان. یہ جوش سے لبریز تو وہ جذبے سے بھرپور.
وہ ایشو ہی اتنا شدید تھا کہ بس کیا کہیے. نعرے پر نعرہ بڑھا آتا تھا. جلوس پر جلوس چڑھا آتا تھا. حسبِ معمول محترم شرکا شہر کے حساب سے غیر مقامی طلبا تھے یا مضافاتی کارکن. حسبِ معمول رہنما یعنی تنظیموں کے عہدیدار پوش علاقوں سے برانڈڈ گرما گرم لباس زیبِ تن کیے موقعِ کاردات پر پہنچے تھے. ان میں سے بہتوں کے والدین وغیرہ بھی ایسی ہی تنظیموں کے سربراہ وغیرہ رہے تھے. دیے سے دیا.

کاریں اکثر نے محفوظ فاصلے پر پارک کر دی تھیں. یہاں یہ مٹھی بھر "کیپیٹلسٹ” ہی سڑکوں پر نہ تھے، اس مسئلے پر احتجاجی مظاہرے ملک بھر میں جا بجا جاری تھے. .معاملہ ایسا ہی گھمبیر ہو چلا تھا کہ یہ سب جلسے جلسیاں جلوس ریلیاں ملا کر بھی اس گہرے دکھ کا احاطہ کرنے سے قاصر تھے جو حالات کی تہہ میں کار فرما تھا. ظلمات کے قلب تک رسائی کو جوزف کونراڈ کا قلم چاہیے یا چنوا چیبے کا جگرا.
ہزاروں میل دور کوئٹہ کی سنگلاخ سردی میں ہزارہ کمیونٹی کے سینکڑوں افراد کئی روز و شب سے سڑکوں پر تھے. شاید یہ کوئی ایسی نئی بات نہ تھی. نہ یہ کہ ان کے سامنے ان کے پیاروں کے تابوت دھرے تھے. نئی بات اس میں کچھ تھی تو یہ کہ ہزارہ برادری اس بار مقتولین کے جنازے اٹھانے، میتیں دفنانے سے انکاری ہوئے پڑے تھے.
موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوے حارث خلیق اور علی اکبر ناطق نے اچھی اچھی نظمیں سنائیں. ایک قبل۔از۔عشرہ قسم کا عشرہ میں نے بھی پیش کیا. بات مانو، ہمارا یہ اک کام کر دو، ہمیں دفن کر دو! اس تاریک طنزیہ مطالبے کے بر عکس جس روشن للکار نے لانگ کوٹوں، جیکٹوں، مفلروں اور سویٹروں میں مدفون و مدہوش اس ہجوم کو زندہ و بیدار کر دیا وہ فہمیدہ ریاض کے علاوہ کسی اور کی نہ ہو سکتی تھی.
ستر سالہ ادیبہ نے پیروں کو جوانوں کا استاد ثابت کیا تو بجا کیا، اس بزرگ کی گفتارمیں وہ تازگی تھی جو ترقی پسندوں، جدیدیوں سمیت لنڈے کے لبرلوں میں ڈھونڈے نہیں ملتی. اس خاتون کی پامردی میں وہ جرات تھی جو کرائے کے ایکٹوزم میں مفقود ہوتی ہے. جیسی متوالی شاعری ویسی ہی جیالی گفتگو. (یہ الگ بات کہ شام ڈھلے جماعت اسلامی کے مقامی امرا و شیوخ اس جلوس میں در آئے اور اگلے روز ڈان کو چھوڑ کر سارے آزاد میڈیا نے سموچا احتجاج انہی بھائیوں کے کھاتے میں جمع کرا کے ثواب کمایا).
یہ ان سے پہلی ملاقات تھی نہ آخری. مگر ہر بار یہی تاثر ملا کہ ان کو کوئی تاثر چھوڑنے کی جلدی نہیں تھی. شاید پہلے، بہت پہلے کبھی رہی بھی ہو. پتھر کی زبان اور دھوپ سے کیا تم پورا چاند نہ دیکھو گے اور آدمی کی زندگی تک، فہمیدہ ریاض کا محض شعری سفر ہی کوئی نصف صدی کو محیط تو ہو گا.
اوایلِ شباب میں آغاز ہونے والے اس طویل ادبی سفر کے دوران فہمیدہ ریاض نے کیا کچھ نہیں کہا اور سہا. شاعری کی، تراجم پر توجہ دی، فکشن، نان فکشن سب لکھا .ادارت سے ایکٹوزم تک ہر بیڑا اٹھایا. کبھی جلاوطنی کے تجربے سے گزری توکہیں ثقافتی سیاحت سے جی بہلایا. حتی کہ اردو لغت بورڈ کی سربراہی بھی نباہی. ہر جگہ، ہر وقت سے وہ اپنی خوشیاں اپنے غم اپنے نظریات احساسات سب اپنے قارئین سے شئیر کرتی چلی گئیں.
وہ گنتی کی ان چند بڑی لکھاریوں میں سے تھیں جن کا اپنے قاری سے ایک ماورائی سا تعلق بن جاتا ہے. یورپ سے واپسی پر وسائل و مسائل میں گھرے شاعر کو ہمیشہ یاد رہے گا جب ایک بھرپور تقریب کو ایک طرف کرتے ہوے وہ سگریٹ پینے چلیں تو مجھے خود بھی یہی لگا کہ خامخا ساتھ لے لیا.
آدھی ڈبی پر پوری داستان سن کر انہوں نے میرے شانے پر تھپکی دی اور فرمایا. تمہیں کچھ نہیں ہو گا. میں ناراضی سے کچھ کہنے چلا تھا کہ سنی ان سنی کرتے بولیں، تمہیں پتا ہے نا ہم لکھنے والوں کو کبھی کچھ نہیں ہو سکتا، ہمارے پاس اپنے جن ہوتے ہیں، ہوتے ہیں نا؟ .مجھے ماننا پڑا کہ جن ہوتے ہیں. اور بعضے فرشتے بھی، جو خطِ مرموز میں گوداوری کی جدید فینتاسی قلمبند کرتے ہیں.
میرٹھ میں پیدا ہونے والی، سندھ میں رچنے اور جہاں بھر میں بسنے والی شاعرہ کی زندگی میں کئی موڑ آئے اور ادب میں بھی۔ بہت مقدمے بنے، کئی فتوے لگے. کچھ عہدے بھی عطا ہوئے، کچھ ایوارڈ بھی ملے. جزا سزا سب یہیں پہ چلتی رہی. محمد خالد اختر اور احمد ندیم قاسمی سے افضال سید اور اجمل کمال تک سب نے انہیں محبت اور عزت سے یاد رکھا.
کچھ عرصہ پہلے بھی سوشل میڈیا پر ان کے شدید بیمار ہونے کی خبر پھیلی. فیس بک پر احوال پرسی کا جواب انہوں نے معمول کی شگفتہ مزاجی سے دیا. میں نے ایک پرانی غزل میں کچھ شعر ٹانک کے ان کی تفریح طبع کے لیے پیش کیے. ردیف تھی ایک ہزار ایک دن. جو انہیں کچھ ایسی پسند آئی کہ اکادمی ادبیات کی کانفرنس میں کتنے ہی بے گناہوں کو طلب کر کے سنوائی. ان کی جانب سے ایک فین کے لیے یہ محبت ایسی ناقابل فراموش تھی کہ میں نے آیندہ مجموعے کو یہی عنوان دینے اور انہی سے منسوب کرنے کا ارادہ کیا.
"بیس سو گیارہ”، ان کی محبوب کتاب، ہمارے بھی محبوب مصنف خود انہی کے نام کر گئے. ہما شما کی بات ہی کیا، لینن تک فہمیدہ ریاض کے حضور میں کب کا حاضر ہوچکا. قلعہ فراموشی کو تسخیر کیے بھی کئی برس ہو چلے. اور تم کبیر… آخر وہی ہوا کہ فہمیدہ ریاض سب کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکل گئیں.

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے