یادوں کے جنگل میں بھٹکنا اور پھر اُس سائے کو تلاش کرنا جو کل تک جیتی جاگتی شکل میں ہمارے ساتھ تھا، بہت مشکل کام ہے۔ اور فہمیدہ ریاض ابھی تک یاد بھی نہیں بن پائیں۔ اُن کی مترنم آواز، دھیمے قہقہے کی گونج، جگر کی ٹکری کہہ کر پکارتی آواز ابھی بھی کہیں قریب سے آرہی ہے، اُسی طرح جیسے گزشتہ چوالیس برسوں میں فہمیدہ نے اپنے اور میرے درمیان فاصلہ محسوس نہیں ہونے دیا تھا۔ ابھی زیادہ دن تو نہیں گزرے، جب وہ فون پر کہہ رہی تھیں، ’’میں بس اب کراچی آجاؤں گی۔‘‘ میں نے اُن کی بہن نجمہ سے پوچھا تھا، کیسی حالت ہے۔ کیوں کہ لاہور جاکر وہ بہتر ہوجاتی تھیں۔ نجمہ کہنے لگی، ٹھیک نہیں ہے۔ تفصیلات سنیں تو میں نے کہا، نجمہ لاہور سے واپس نہ آنا۔ ویرتا ڈاکٹر ہے، ڈاکٹر بیٹی جو دیکھ بھال کرسکتی ہے، وہ کوئی اور نہیں۔ پھر اُس کے بچے تو فہمیدہ کی زندگی میں خوشی کا واحد گوشہ تھے۔ کراچی میں جب وہ اپنی بیماری اور تکلیف کی وجہ سے مایوسی کی باتیں کرتیں تو میں اُن کے نواسوں کا ذکر چھیڑ دیتی۔ پھر اُن کے لہجے میں وہی مانوس کھنک آجاتی۔ سلیمان، داؤد اور سب سے چھوٹا اسحاق۔ اُن کی چھوٹی چھوٹی باتیں یاد کرتیں اور اپنی تکلیف بھول جاتیں۔
فہمیدہ گزشتہ دو برس سے آٹوامیون جھیل رہی تھی۔ یہ وہ بیماری جس میں قوتِ مدافعت پر قابو پانے کے لیے دواؤں کے ساتھ زندہ رہنے کی اُمنگ بھی ضروری ہے۔ مگر حالات اور بے رحم معاشرے نے اُنھیں کیا دیا؟ دشنام، الزامات، اکلوتے جوان بیٹے کی پردیس میں ناگہانی موت وہ جھیل چکی تھیں۔ اب شدید بیماری میں بے روزگار بھی کر دی گئیں۔ بہ یک قلم برخاستگی کا پروانہ ہاتھ میں دینے والے نے یہ بھی نہیں سوچا کہ رزق کے ساتھ اُنھیں دوا اور علاج کی بھی ضرورت ہے۔ اس نابغۂ روزگار پر، جس نے اپنے قلم سے نہ صرف ادبی شہ کار دیے تھے، اشاعتی ادارے کو بھی اعلیٰ تخلیقات سے مالا مال کیا تھا، اُسے بے وقعت ہونے کا شدید احساس دیا گیا۔ صورتِ حال کی سنگینی دیکھ کر میں نے فیس بک پر لکھا تھا:
’’فہمیدہ ریاض بہت علیل ہیں۔ اگر وہ کسی ایسے معاشرے میں ہوتیں جہاں علم و ادب ترجیح ہوتا تو اس نابغہ ہستی کی حفاظت کرنے والے بہت سے ہوتے۔‘‘
مجھے فوری طور پر ایک وفاقی وزیر کے دفتر سے اُن کے ڈائریکٹر کا فون آیا تھا کہ وزیرِ موصوف نے فہمیدہ ریاض سے رابطے کے لیے کہا ہے اور آپ بتایئے ہم کس طرح اُن سے بات کرسکتے ہیں۔ میں نے نجمہ کے فون پر فہمیدہ سے رابطہ کروا دیا تھا، اُن سے یہ سوال کیا گیا کہ ہم آپ کے لیے کیا کرسکتے ہیں؟ تو اُس باہمت، خوددار خاتون نے کہا، ’’آپ فاطمہ حسن سے بات کرلیجیے۔‘‘ میں نے اسی سوال پر کہ فہمیدہ ریاض کے لیے کیا کِیا جاسکتا ہے، جواب دیا تھا کہ وہ شدید بیمار ہیں، بے روزگار ہیں، شوہر بھی فالج میں مبتلا ہیں۔ اب اس حالت میں کیا کرنا چاہیے، آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں، جو کرنا ہے جلد از جلد کیجیے۔ مگر جلد تو کیا، بدیر بھی کوئی فون اُدھر سے نہیں آیا۔ اس درمیان میں نے کئی مرتبہ ڈائریکٹر صاحب کے دفتر کے نمبر پر فون کیا، ہمیشہ یہ پتا چلا کہ وہ میٹنگ میں ہیں۔ یہاں میں واضح کردوں کہ میرا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ادب سے سچا تعلق ہے اور تمام اہلِ قلم کو اپنے خاندان کے افراد سمجھتی ہوں۔ اس لیے ادبی سماجیات سے ایک باشعور، حسّاس فرد کی طرح وابستہ رہتی ہوں۔ میرے علم میں ہے کہ محکمۂ ثقافت سندھ اور اکادمی ادبیات نے انھیں ایوارڈ و وظائف سے نوازا تھا، پر زندگی گزارنے کے لیے یہ کافی نہیں تھا۔
پھر یوں ہوا کہ جب فہمیدہ کی حالت زیادہ خراب ہوئی۔ فہمیدہ نے دوا علاج سے منھ موڑ لیا تھا یعنی زندہ رہنے کی جو ہلکی سے اُمنگ تھی، وہ بھی بجھتی جا رہی تھی۔ نجمہ نے بتایا کہ وہ نظریں بچا کر دوائیں ڈسٹ بن میں اُنڈیل دیتی ہیں۔ ہم نے سوچا کس طرح اُنھیں خوش کیا جائے۔ تو ہم دونوں نے اُنھیں رضامند کیا کہ وہ کچھ دنوں کے لیے لاہور ویرتا کے پاس چلی جائیں۔ یہ اکتوبر کا مہینا تھا اور لاہور ایکسپو سینٹر میں یکم نومبر سے کتابوں کی نمائش ہونے والی تھی۔ ہم نے سوچا کہ فہمیدہ کو کس طرح زندگی کی طرف راغب کریں۔ فوری طور پر مجھے خیال آیا کہ ایکسپو سینٹر میں فہمیدہ پر کتاب کی تقریب کی جائے۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری سے پوچھا جو کتاب آپ نے فہمیدہ پر لکھی تھی، اُس کے کچھ نسخے بچے ہوئے ہیں؟ وہ کہنے لگے کہ دوسرا ایڈیشن شائع کرسکتا ہوں۔ کتنی جلدی میں نے سوال کیا۔ سنگت اکیڈمی کی کتابیں کراچی ہی میں چھپتی ہیں۔ اچھا تو پھر یہ ایڈیشن سنگت کے لیے اپنی ہی نگرانی میں شائع کروا دیتی ہوں۔ دس دنوں میں کتاب چھپ گئی۔ فہمیدہ اور نجمہ کو لاہور روانہ کردیا اور طے ہوا کہ ایکسپو سینٹر میں ایک چھوٹی سی تقریب ہوگی جہاں فہمیدہ اپنی کتابوں پر دستخط کریں گی۔ انجمن ترقیِ اردو سے صدر ذوالقرنین جمیل، مشیرِ علمی و ادبی امور پروفیسر سحر انصاری اور میں لاہور ایکسپو سینٹر پر فہمیدہ ریاض کے منتظر رہے مگر اُن کی حالت اب ایسی نہ تھی کہ وہ قدموں پر چل کر آسکتیں۔ نجمہ نے بتایا کہ وہیل چیئر پر بیٹھنے سے فہمیدہ نے انکار کردیا ہے۔ ویسے بھی اُن دنوں دھرنے والوں نے دو دن ضائع کروا دیے تھے۔ اور پھر غیریقینی صورتِ حال میں مریض کو گھر سے باہر نکالنا مناسب نہ تھا۔
فہمیدہ کی زندگی شاید کاتبِ تقدیر نے کسی ناول کی طرح لکھی تھی، حسین، چنچل، من موجی مگر اصولوں پر قائم رہنے والی اک ضدی ہیروئن۔ شمع کی طرح روشن مگر اپنے دکھوں پر نہیں، اردگرد ہونے والے مظالم اور ناانصافیوں پر رونے والی۔ یہ شمع خاموش بھی تو نہیں تھی۔ ضیاء الحق جیسے آمر سے تنہا ٹکرا گئی۔ مُلّاؤں کے ٹولے کو آئینہ دکھا دیا۔ چادر اور چار دیواری کی حقیقت بہ بانگِ دہل بتا دی۔ بلوچستان جاکر اُن سے ہم آہنگی کا اعلان کردیا۔ رسالہ نکال کر اہلِ دانش کی خاموشی میں ارتعاش پیدا کرنے کی کوشش کی اور اُنھیں اپنی انگلیوں سے گرائے ہوئے قلم اُٹھانے کی دعوت دے دی۔ عورتوں کو صدیوں کی بے توقیری سے نکال کر کاندھے پر سر ہونے کا اعلان کیا اور مقابلۂ حُسن میں اُن کے بدن کے ساتھ اُس صنف کو بھی اپنی پیمائش کی دعوت دی جن کے پیمانے صرف عورتوں کے بدن ناپ سکتے تھے، روح نہیں۔ فہمیدہ کے باطن سے نکلی ہوئی چیخ کو بھی شہوت کی آواز جانا گیا اور لعنتی قرار دے کر سماج سے بے دخل کرنے کی تمام کوششیں کی گئیں۔ فہمیدہ جیسے حسّاس انسان پر ان حالات کے اثرات تو پڑنے تھے، خصوصاً جب وہ جلاوطنی سے واپس لوٹیں تو اپنے گھر میں محدود ہوگئیں۔ کہیں جانے کو کہا جاتا تو انکار کر دیتیں۔ بڑی مشکل سے اس بات پر آمادہ ہوتیں کہ میں اُنھیں ساتھ لے کر جاؤں اور واپس پہنچاؤں۔ بہت چنیدہ تقریبات میں جاتیں اور سارا وقت میرا آنچل تھامے رہتیں۔ دھیرے دھیرے وہ اس صورتِ حال سے نکل آئیں۔ اس میں امینہ سیّد کا بڑا حصہ ہے جو سرکاری نوکریوں سے برخاستی کے بعد فہمیدہ کو اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس میں لے گئیں اور اُنھیں اُن کے پسندیدہ کام تصنیف اور ترجمے پر مامور کردیا۔ وہاں بیٹھ کر اُنھوں نے بچوں کے لیے وہ کام انجام دیے جو وہی کرسکتی تھیں یعنی اردو، سندھی اور فارسی کے کلاسیکی ادب سے نئی نسل کو روشناس کروانا۔
فہمیدہ کی شاعری نے مجھے اور تمام اہلِ ادب کو اُن کی پہلی کتاب سے ہی متاثر کردیا تھا۔ پہلی کتاب ’’پتھر کی زبان‘‘ شائع ہوئی تو یہ نظم خوش گوار حیرت میں مبتلا کر گئی۔
اب سوجاؤ
اور اپنے ہاتھ کو میرے ہاتھ میں رہنے دو
تم چاند سے ماتھے والے ہو
اور اچھی قسمت رکھتے ہو
بچے کی سی بھولی صورت
اب تک ضد کرنے کی عادت
کچھ کھوئی کھوئی سی باتیں
کچھ سینے میں چبھتی یادیں
اب انھیں بھلا دو… سو جاؤ
اور اپنے ہاتھ کو میرے ہاتھ میں رہنے دو
سوجاؤ… تم شہزادے ہو
اور ہم کو کتنے پیارے ہو!
اچھا تو کوئی اور بھی تھی؟
اچھا، پھر بات کہاں نکلی؟
کچھ اور بھی یادیں بچپن کی
کچھ اپنے گھر کے آنگن کی
سب بتلا دو… پھر سو جاؤ
اور اپنے ہاتھ کو میرے ہاتھ میں رہنے دو
یہ ٹھنڈی سانس ہواؤں کی
یہ جھلمل کرتی خاموشی
یہ ڈھلتی رات ستاروں کی
بیتے نہ کبھی… تم سوجاؤ
اور اپنے ہاتھ کو میرے ہاتھ میں رہنے دو
یہ شعر سب کو چونکا گیا:
پتھر سے وصال مانگتی ہوں
میں آدمیوں سے کٹ گئی ہوں
یہ ایسی شاعری تھی جسے نظرانداز کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔ وہ جذبات، کیفیات اور تجربات جو کبھی لکھے نہیں گئے تھے، پوری تخلیقی شدت اور اعلیٰ جمالیات کے ساتھ کاغذ پر چَھپے ہوئے، ذہن و دل دونوں کو گرفت میں لے لیتے۔ نہ ترنم کا سہارا تھا، نہ مشاعرے کی پرفارمنس۔ بس کتاب تھی اور قاری۔ لکھنے والی بھی کوئی ایسی پوشیدہ ہستی نہیں تھی کہ جسے لوگ نہ جانتے ہوں۔ حیدرآباد میں طلبہ سیاست، ریڈیو کے پروگرام اور ادبی برادری تک کی شناسائیاں شہرت میں بدل چکی تھیں۔ جب وہ شادی کے بعد لندن میں بھی مقیم تھیں تو اُن کی نظمیں یہاں رسائل میں ہوتی رہیں۔ فہمیدہ ریاض لندن سے اپنی چھوٹی سی بیٹی سارا کے ساتھ لوٹیں تو یہی وہ زمانہ تھا جب یونی ورسٹی کے لان پر ایک خوش گوار شام کو میں نے اُنھیں شعری محفل میں دیکھا اور سنا۔ اُن کی بیٹی سارا اُن کے ساتھ تھی اور میرے ساتھ میری امّی۔ یہ سنہ ۱۹۷۴ء اور ۷۵ء کا عرصہ تھا جب فہمیدہ ریاض ہماری شعری محفلوں میں شریک ہوتیں۔ سنہ ۱۹۷۵ء میں خواتین کا عالمی سال منایا گیا تو میں نے وہ نثری نظم لکھی تھی جس کی آخری لائنوں میں ماں بیٹی سے کہتی ہے:
’’میں تمھیں تمھارے باپ کے خلاف بولتے دیکھ کر بہت خوش ہوئی کہ اب میں تمھاری پناہ میں آنا چاہتی ہوں۔‘‘
یہ وہ زمانہ تھا جب نثری نظم کی مخالفت ہر حلقے میں ہو رہی تھی۔ اس میں ترقی پسند اور روایت پرست ہم آواز تھے۔ ایک مشہور ترقی پسند نقاد نے تو نثری نظم لکھنے والوں کو ادبی دہشت گرد بھی قرار دے دیا تھا۔ جب نثری نظم کے موضوع پر میری گفتگو فہمیدہ ریاض سے ہوئی اور ہم نے اُنھیں بتایا کہ ہم تمام تر سیاسی و سماجی شعور کے ساتھ وہ کچھ لکھ رہے ہیں جو ہمارے عہد کی سچائی ہے تو ہمارے ادبی رویوں کو نہ صرف اُنھوں نے پہچانا بلکہ ہماری طاقت بن گئیں۔ سنہ ۱۹۷۷ء میں میرا پہلا مجموعہ ’’بہتے ہوئے پھول‘‘ شائع ہوا تو قمر جمیل کی صدارت میں اس کی تقریبِ اجرا کی مہمانِ خصوصی فہمیدہ ریاض تھیں۔ غالب لائبریری میں منعقد ہونے والی اس تقریب میں پروین شاکر اور زاہدہ حنا نے بھی کتاب پر گفتگو کی تھی۔ اس مجموعے میں زیادہ تر نثری نظمیں تھیں اور شاید وہ ایک کم عمر شاعرہ کا نسائی شعور ہی تھا جس نے ان تینوں ذہین خواتین کو لکھنے پر آمادہ کیا تھا۔ فہمیدہ نے لکھا ’’میں فاطمہ کی نظموں کے تیور کو اُس فخر کے ساتھ دیکھتی ہوں جیسے ماں بیٹی کو دیکھتی ہے۔‘‘ پھر فہمیدہ ساری عمر میری دوست بنی رہیں مگر اکثر تو وہ ایسی ماں بن جاتیں جو بیٹی کی پناہ میں آگئی ہو۔
اپنا ادارہ ویمن ڈیولپمنٹ ایسوسی ایشن (وعدہ) قائم کرکے تو فہمیدہ نے بیٹیوں کی مکمل پناہ حاصل کرلی تھی۔ وعدہ کتاب گھر فہمیدہ کا ایسا خواب تھا جسے حقیقت بنا کر اُنھوں نے اردو میں نسائی ادب کا حقیقی تصور اُجاگر کیا اور یہ اردو ادب پر اُن کا بڑا احسان ہے۔ اُس وقت تک فیمنزم کی تفہیم تو کیا، ہمارے ہاں اس کے خلاف وہ ردِعمل عام تھا جو صدیوں سے عورتوں کے خلاف رائج رہا ہے۔ فیمنزم کو عورت مرد کا جھگڑا، مغرب کا فیشن اور ناقص العقل فارغ عورتوں کا مشغلہ سمجھا جاتا تھا۔ فہمیدہ نے وعدہ کے تحت نسائی شعور پر سیمینار منعقد کیا جس میں بہت معتبر اہلِ قلم کو بلاتخصیصِ صنف لکھنے اور مقالہ پیش کرنے کی دعوت دی گئی۔ اس موقعے پر جو مقالے پڑھے گئے اُن پر مکالمہ بھی کیا گیا اور اس پوری کارروائی کو مضامین اور مثالوں کے ساتھ کتابی شکل میں شائع کیا گیا۔ یہ کتاب ’’خاموشی کی آواز‘‘ آصف فرّخی اور میں نے مرتّب کی۔ مگر فہمیدہ کی دانش اور وہ انفرادی اُپج جو اعلیٰ تخلیقی ذہن کو عطا ہوتی ہے، ہمارے ساتھ تھی۔ اُنھوں نے سلویا پلاتھ کے بارے میں ایک خاتون مصنف کا لکھا ہوا مضمون مجھے ترجمہ کرنے کے لیے دیا۔ یہ مضمون خواتین کے نقطۂ نظر کا بہترین حوالہ تھا جو ہم نے اس کتاب میں شامل کیا۔ اس طرح یہ اردو میں نسائی تنقید پر پہلی بہت مستند و معتبر کتاب تھی جسے وعدہ کتاب گھر نے شائع کیا تھا۔ اس کا دوسرا ایڈیشن فہمیدہ ریاض کی اجازت سے حال ہی میں انجمن ترقیِ اردو نے شائع کیا ہے۔ فہمیدہ نے ایک سیمینار پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ کوئٹہ اور لاہور میں بھی ایسے ہی سیمینار نسائی ادب پر منعقد کیے جن کے نتیجے میں ’’بلوچستان کا ادب اور خواتین‘‘ اور ’’نسائی ردِ تشکیل‘‘ دو کتابیں وعدہ کتاب گھر سے شائع ہوئیں۔ پھر ان کے بعد برصغیر میں نسائی شعور کی رَو کا پہلا سِرا سامنے لانے کے لیے ’’فیمنزم اور ہم‘‘ مرتّب کروائی۔ اس میں وہ پوری طرح میرے ساتھ شریک رہیں۔ حالی اور زاہدہ خاتون شروانیہ (ز خ ش) سے عہدِ حاضر تک اس کتاب میں فیمنزم کی تاریخ مجتمع ہوگئی ہے۔
فہمیدہ ریاض بہترین شاعرہ ہی نہیں، اعلیٰ نثر نگار بھی تھیں، اُن کی پہلی نثری تصنیف ’’زندہ بہار لین‘‘ جب میں نے پڑھی تو ششدر رہ گئی۔ نثر میں سہ جہتی تخلیقی اظہار، مشاہدے کی وہ گہرائی اور باریک بینی جس کی توقع ایک الجھی الجھی شاعرہ سے بالکل نہ تھی، میرے مطالعے میں تھی۔ ڈھاکا کے چند روزہ قیام، ماضی سے حال تک، اتنا کچھ اُنھوں نے دیکھ لیا اور لکھ دیا جس کے لیے طویل عرصہ چاہیے تھا اور میں جو ڈھاکے میں اپنا بچپن گزار کے آئی تھی، اُن کی آنکھوں سے ڈھاکا کی اُنھی گلیوں اور لوگوں کو دیکھ رہی تھی جو بہت مانوس تھے۔ اُس وقت میں نے جانا کہ سچے تخلیق کار کے پاس ظاہری آنکھوں کے ساتھ باطن کی آنکھیں بھی ہوتی ہیں جن سے دیکھنے کے لیے فکر و نظر میں بہت شفافیت چاہیے۔ آئینے کی طرح شفاف باطن والی فہمیدہ پر سچائیاں منعکس بھی ہوئیں اور منکشف بھی۔ وہ صرف ظاہری نہیں لکھتی تھیں، وہ کردار و واقعات کا باطن بھی لکھتی تھیں اور ویسے ہی جیسا دیکھتی تھیں۔ کسی مصلحت یا تعصب سے قلم کو آلودہ کیے بغیر اپنی سچائی کو ترجیح دینے والا یہ اظہار اُس کے لیے باعثِ وبال بھی رہا مگر وہ کبھی بھی مصلحت کا شکار نہ ہوئیں۔’’گوداوری‘‘ اور ’’کراچی‘‘ پر لکھتے ہوئے اس کا قلم سچے الفاظ اُگلتا رہا، فہمیدہ کے باطن کو لکھتا رہا۔ ’’تم بھی ہم جیسے نکلے بھائی‘‘ لکھ کر وہ ہندوستان میں بھی معتوب ہوئیں مگر سچ لکھنا نہ چھوڑا۔ یہاں تک کہ اپنے بیٹے کے صدمے کو لہو میں اُنگلیاں ڈبو کر لکھ دیا۔ ’’تم کبیر‘‘، یہ طویل نظم پڑھتے ہوئے آنکھیں اشک بار ہوجاتی ہیں۔ فہمیدہ جانے کیسے ایسی شدت کو سہتے ہوئے لفظوں میں روتی تھیں۔ شاید اُنھوں نے اپنی ساری جسمانی توانائی اسی تصادم میں خرچ کردی۔ اور ہاں، ’’قلعۂ فراموشی‘‘ ایک اور شاہ کار جو اُس نے بیماری کی حالت میں ہی تخلیق کیا۔ مزدک کے حوالے سے لکھا ہوا یہ ناول صرف تاریخ نہیں ہے، ہمارے عہد کا وہ باب ہے جسے مستقبل کے تاریخ دان پڑھیں گے۔
ہمارے عہد کا ایک باب تو خود فہمیدہ کی زندگی بھی ہے، ایک بہادر عورت جو نہ حکمرانوں سے ڈری، نہ سماج سے، نہ ہی موت سے۔ آخری ہچکی تک مسکراتی رہی۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے