.نمبر سے کال آئی۔ اُٹھایا تو برکت صاحب کی آواز تھی۔جی جناب پروفیسر برکت علی ۔ آج کل اسلام میں ہوتے ہیں دل اُن کا بلوچستان میں دھڑکتا ہے ۔.unknown
زندگی یہیں گزاری اور یہیں کا ہوکر رِہ گیا۔ پروفیسر برکت نے کہا دو تین دن کے لیے آیا ہوں، کل واپسی ہے پانچ سات منٹ کے لیے مل لیتے ہیں تو اچھا ہے ۔ میں نے سوچا مجھ جیسے نالائق کو پروفیسر برکت صاحب اتنی عزت دے رہے ہیں میرے لیے خوشیا ؛اور فخر کی بات ہے ، پروفیسر برکت سے پانچ یا سات منٹ سے لے کر پانچ سات گھنٹوں تک اور پانچ سات سالوں تک کا یہ سلسلہ ابھی کا تو نہیں، یہ صرف سلسلہ ہی ہے جلد ہی اُٹھ کر پروفیسر برکت کے پاس گھر پہنچا۔ خود ہی گیٹ پر آئے اور دیکھ کر چہرے پر رونق اور روشنی بھر گئی بغل گیر ہوئے تو ایسا لگا بس دل دھڑک رہے ہیں ۔ بیچ میں کوئی اور فاصلہ ہی نہیں کیونکہ کبھی فاصلہ رہا ہی نہیں ہے ۔ ایسے انسان دوست تو خود ہی فاصلوں کو سمیٹتے ہیں اور فاصلے خود ہی سمٹ جاتے ہیں۔ تبھی تو لگا ہم تو ہمیشہ سے ملتے رہے ہیں۔ دیر تک بیٹھے رہے۔ دودھ پتی چائے کا دور بھی چلا۔ خیریت دریافت کی ۔ تو برکت صاحب نے کہایار دل اُداس ہے۔ اور میں ٹھیک ہوں یہ اُداسی کی کیفیت اُس وقت بڑھتی چلی گئی جب میں اپنے آپ سے دور ہونے لگا۔ دوستوں سے نہ ملنے کی اُداسی دوستوں کے درمیان نہ ہونے کی اُداسی ۔ دور ہونے کی اُداسی سب یاد آتے ہیں۔ پروفیسر بہادر خان رودینی اور پروفیسر امیرالدین کا ذکر کیا آنکھوں میں نمی ہے ۔ دل میں اُداسی چہرے پہ مسکراہٹ ۔سب کچھ بتا رہا تھا پروفیسر برکت کچھ بہت ہی اچھے حال میں نہیں۔ میں تو سمجھا کہ کمزوری ہے ۔ یا کہ طبیعت خراب رہی ہے ۔ ہم ڈاکٹر بھی بس ہرجگہ بیماری ڈھونڈتے ہیں۔ یہ جانے بغیر کہ پورا معاشرہ بیمار ہے کیے ۔ مگر پروفیسر برکت کی تندرستی کا تو میں نے اندازہ لگایا۔ لیکن اس اُداسی پر میں نے برکت صاحب سے کہا۔ اُداس ہونے کے دن نہیں لیکن اُداس ہونا ضروری ہے۔ جب ہمارا دل آپ کے ساتھ دھڑکتا ہے یہ مٹی آپ سے اتنی محبت کرتی ہے ، تو پھر بھی بے قراری ہے تو کیا کیجیے۔
بلوچستان یونیورسٹی میں پروفیسر برکت کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ آپ کا دیا ہوا علم آپ کے شاگردوں اور آپ کے دوستوں کے ذریعے روشنیاں بکھیرتا رہے گا علم شعور کو جس محبت اور لگن سے آپ لوگوں نے زندہ رکھا اور پھیلاتے رہے۔ اُس جدوجہد کو مزید آگے لے جانے کی ضرورت ہے ۔ ترقی پسندانہ سوچ کے حامل پروفیسر برکت علی نے وومن رائٹس سے لے کر ہر شعوری عمل میں اپنا حصہ ڈالا ہے اور احسن طریقے سے اپنے خدمات انجام دیتا رہا ہے۔
آپ جہاں ہیں آپ یہیں ہیں، اور کہیں بھی نہیں ڈیئر۔
جہاں بھی رہو گے ہمیں اپنے آس پاس پاؤ گے۔ کیونکہ ہم کبھی آپ کے دل ودماغ سے گئے ہی نہیں ۔ اورآپ تو ہمارے اندر بستے ہو تو پھر یہ اُداسی کیوں ۔ پروفیسر برکت علی صاحب کی خدمات اُن کا دیا ہوا شعور، اُن کی محبت دوستی اور سنگتی سے ہمیشہ استعفادہ حاصل کرتے رہیں گے۔ سر سلامت رہیں۔ اللہ انہیں زندگی بھر صحت دے ان کا سایہ ہی ہمارے لیے کافی ہے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے