لگے ہے دل یہ ، دیوار گریہ
ہیں محو ماتم یہاں زمانے
یہ زخم ہیں یا کہ تازیانے
شجر دعاؤں سے لد چکے ہیں
مگر ہیں شاخیں ثمر سے خالی
گماں یقیں کا جو بھید پوچھے
تو اشک کرتے ہیں ڑالہ باری
جو درد ساکن تھے مدتوں سے
لٹیں ہیں خواہش کے کارواں تو
تڑپ کے کرتے ہیں آہ و زاری
وہ اک محبت جو مر چکی تھی
اسی کا تابوت کھو گیا ہے
لباس ماتم میں ہے یہ عدت
رہے گی یونہی یہ غم منانے
دہائی سنتے ہی جسم و جاں کی
لگا ہے جلنے ہر ایک قریہ
لگے ہے دل یہ ، دیوار گریہ

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے