میری رگ رگ میں اتر آئی ہے
انجیکٹڈ شام
کانپتا جاتا ہوں سگریٹ کے کش لیتا ہوا
اور سریاب کی ویران سڑک

زرد خوابوں سے لپٹتے فٹ پاتھ
بیتی شاموں سے بھری
چائے کی خالی پیالی
اور ہلکی سی شفق مائل ہوا چلتی ہوئی

شاخچوں پر سے ٹپکتی ہیں لویں
اور مدھم سے بہت ہی مدھم
گنگناتے ہوئے چلتے ہیں گٹر

شام کی ریل کی بجتی ہوئی سیٹی کے ساتھ
دن کسی سرخ پرندے کی طرح سر سے گیا
اور میں سہما ہوا
سگریٹ کے کش لیتا ہوا جاتا ہوں
دور سے گھورتی رہتی ہیں مجھے
سرخ آنکھوں بھری انجان گلی
وین بھوتوں سے بھرے!

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے