ادب ،کسی سماج کے احساسات اورگذران کاعکس ہوتاہے۔اگرچہ ماحولیات ایک پیچیدہ اور سائنسی موضوع ہے جوجین سے لے کرایکوسسٹم تک پھیلا ہواہے ۔عصر حاضر میں انسانی آبادی میں اضافہ،کارخانوں کی بہتات اور ناقص انتظام کاری کے سبب ماحولیاتی بگاڑایک عالمی مسئلہ بن کرحیاتِ انسانی،دیگرجان داروں اورفطرتی ماحول کے لیے خطرہ بن چکاہے۔اگرچہ ماحولیاتی مسائل کے بارے گذشتہ صدی میںآوازابھری۔تاہم انیسویں صدی میں جب برصغیراوربعدہٗ بلوچستان میں مشینی و صنعتی دورکاآغازہوا تواس سے ماحولیاتی مسائل پیدا ہوئے۔بلوچ اہل قلم اورشعرانے اپنے ہاں فضائی آلودگی ،قدرتی ماحول اورچراگاہوں کی ابتری کومحسوس کیا۔ بلوچ، دنیاکے مختلف خطوں میںآبادہیں۔ انہوں نے بلوچی ادب میں اس جانب اشارے کیے۔تاہم مغرب کی ماحولیاتی تحریک کی طرح ان کے ہاں کوئی منظم تحریک بلوچی ادب میں ناپیدہے۔اگرچہ بیسویں صدی کی جدیدبلوچی ادبیاتِ نظم ونثر میں اس ضمن میں منتشرخیالات کی نشان دہی ہوتی ہے۔تاہم یہ محسوسات قبل ازصنعتی ترقی کے کلاسیک بلوچی ادب میں مفقودہیں۔یہ تحریر بلوچی ادب میں ماحولیاتی مسائل اورمستقبل میں ان سے نبرد آزما ہونے کے بارے روشنی ڈالتی ہے۔
مہربان خالقِ کائنات، روزانہ انسان کوپیغام بھیجتا ہے کہ وہ اس سے ابھی تک مایوس نہیں ہوا ۔اس لیے روزانہ اٹھارہ ہزاربچے پیداہورہے ہیں۔کائنات میں انسان کومرکزی مقام حاصل ہے۔ زمین پرانسان کا ہزاروں سال سے بسیراہے۔نباتات،حیوانات،حشرات ،پرندے اورسمندری حیات انسان کے جان دار ہمسائے ہیں۔اللہ کی سرزمین پرزندگی شاداں وفرحاں ہے۔گل،گلشن اورگل اِستان خوب صورت ماحول میں شاداب وآبادہیں۔ماحول کاخاصہ ہے کہ یہ ہردم تغیرپذیرہے ۔جیسے مفکرشاعر اقبالؒ نے فرمایا :
ثبات اک تغیرکوہے زمانے میں
زمین کاماحول بہ شمو ل بلوچستان، اسی فطرتی اصول کے تحت بدلتارہااوربدلتارہے گا۔ بلوچی ادب کاعالمی ماحولیاتی تناظرمیں جائزہ سے قبل مناسب ہے کہ بہ طورِ پس منظرقدیم ارضی ماحولیات کااجمالی ذکرکیاجائے ۔اس ضمن میں سائنس دانوں کاقیاس ہے کہ:
کائنات ۱۵بلین سال قدیم ہے ۔زمین پرزند گی کے آثار ۴۰۰۰ ملین سال قبل ایلجی اور بیکٹیریاکی صورت وجودپذیرہوئے۔آبی حیات ،سمندری مخلوق جیلی مچھلی ۵۷۰ ملین سال قبل؛ پودے ،جھاڑیاں،کیڑے ۴۱۰ملین سال قبل، پروں والے جان دار ۳۶۰ملین سال قبل، رینگنے والے جان دار۳۲۰ملین سال قبل،ڈائنوسار ۲۴۸ ملین سال قبل(جو۹۸ ملین سال قبل معدوم ہوگئے)؛پرندے۲۱۳ملین سال قبل ؛ دودھ دینے والے جان دار۶۵ملین سال قبل ؛ بن مانس ۵۰ملین سال قبل ؛ بلوچی تھیریم (Baluchitherium)یعنی بلوچستانی سبزہ خوراونٹ نما جان دار ۳۵ملین سال قبل (جو۲۴ ملین سال قبل معدوم ہوگئے) ؛بے دُم بندربن مانس۲۵ ملین سال قبل؛ انسان نماجان دار۵ملین سال قبل؛ گھوڑے، ہاتھی اوربڑی سینگوں والے جان دار اورموجودہ انسانی نسل ۸.۱ملین سال قبل ظہورپذیر ہوئے۔مہرگڑھ دامنِ مشرقی بلوچستان سے ۵۰۰۰سال قبل مسیح کے ہاتھیوں کی باقیات ملی ہیں۔(1) ۔
بلوچستان کاقدیم فطرتی ماحول بحری اوربری رہاجہاں محجرات و رکازکی مددسے ساڑھے سات کروڑسال قبل زندگی کے آثارکی نشان دہی ہوئی ۔یہ خطہ جنگلات،ڈائنوساراوربلوچی تھیریم جیسے نباتاتی وحیوانی حیات کاحامل رہا۔دنیائے سائنس میں عالمی سطح پر تسلیم شدہ بلوچستانی معدوم جان دار ’’بلوچی تھیریم‘‘کے بابت ماہرعلم الارض محمدرضابلوچ لکھتے ہیں کہ:
کرۂ ارض کی تاریخ کاسب سے درازقامت جانور’’بلوچی تھیریم‘‘بلوچستان میں پایاجاتا تھاجس کازمانہ دوکروڑساٹھ لاکھ سال قبل کاتھا۔ارتقائے حیات میں شروع سے اب تک دنیامیں سب سے بڑابسنے والا ’’بلوچی تھیریم ‘‘درختوں کے پتے کھانے والابغیرسینگ کے جانورتھاجس کی اونچائی سات میٹراورلمبائی پچیس میٹر تک تھی ۔کندھے تک اس کا قد18 فٹ تھا۔ یہ بھاری بھرکم ،درازقد شیردار جانور تقریباً 80ٹن وزنی تھا۔1911ء میں پہلی بار بلوچی تھیریم کانام اس وقت ذرائع ابلاغ میںآیاجب حکومت برطانیہ کے زیرِ انتظام’’نیشنل جیوگرافک‘‘ کے تعاون سے کیمبرج یونی ورسٹی کے پروفیسر ’’سی فورسٹرکوپر‘‘ نے ڈیرہ بگٹی بلوچستان کے علاقے میں کھدائی کی۔باون سال بعد 1963 ء میں ڈیرہ بگٹی سے ایک اور بلوچی تھیریم کاڈھانچہ برآمدہوا۔ 1986میں فرانسیسی ٹیم نے ڈیرہ بگٹی کے علاقے سے ہی بلوچی تھیریم کی ہڈیاں دریافت کیں۔بلوچستان کاصحرائی علاقہ کروڑوں سال قبل سمندرپرمشتمل تھاجوبعدمیں خشکی کاحصہ بن گیا۔ بلوچستان میں تقریباً 7 کروڑ50 لاکھ سال قبل مختلف نسل کے ڈائنوسارگھنے جنگلوں میںآبادتھے۔ فروری 2001ء میں جیالوجی کل سروے آف پاکستان کے ماہر ارضیات محمدصادق ملکانی بلوچ نے بارکھان شہر سے35کلومیٹردورمقام ’’وٹاکری‘‘سے رکاز برآمدکیے ۔یہ ہڈیاں تہہ دارچٹانوں سے ملیں۔ہڈیوں کی ابتدائی تحقیق سے اندازہ ہوا کہ بلوچستان کے اس علاقے میں تقریباً سات کروڑسال قبل مختلف اقسام کے ڈائنوسار بڑی تعدادمیں موجود تھے۔ اُس وقت بلوچستان کایہ علاقہ ایک بہت بڑی چراگاہ تھا جہاں چھوٹے بڑے ڈائنوسارپرورش پاتے تھے۔ضلع بارکھان کے سولہ مقامات سے ڈائنوسارکی تقریباًڈیڑھ ہزارہڈیاں برآمدہوئیں ۔(2) ۔

قدرتی ماحولیات میں جان دارایک دوسرے پرانحصارکرتے ہیں اوریہ ان کی ماحولیاتی رشتہ داری ہوتی ہے جیسے، شہدکوپھول کی ضرورت ہوتی ہے،باز کوشکار کی،پرندے کوگھونسلے کی،درخت کوپانی کی،انسان کواناج کی، مویشیوں کوگھاس کی۔ یہ ایک دوسرے کے لیے فائدہ مندبھی ہے اورنقصان دہ بھی۔ناساز گارماحول سے پرندے جیسے کونج ،جان دار اورانسان ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرجاتے ہیںیا پھر نابودہوجاتے ہیں۔جب شمالی خطۂ بلوچستان پرسمندرباقی نہ رہاتواس فطرتی حادثہ اور ناسازگارماحول کے باعث، کروڑوں سال قبل کی بلوچستانی متنوع سمندری حیات،ساحل وجزائرپررہنے والے ڈائنوسار اور بلوچی تھیریم معدوم ہوگئے جن کے اب محض محجراتی آثارباقی نظرآتے ہیں۔ان کے بارے بلوچ اہل قلم کی تحریریں موجودملتی ہیں۔ سمندرسے خشکی میں بدل جانے کے کروڑوں سال بعدسازگار ماحول بننے پر انسان اس خطے میں آکر آبادہوا۔چناں چہ درۂ بولان بلوچستان سے مشرقی جانب ’’مہرگڑھ‘‘کے مقام پرنو ہزار سال قبل کی انسانی آبادی کی باقیات ملی ہیں۔اس بارے ڈاکٹرشاہ محمدمری رقم طراز ہیں کہ :
مہرگڑھ تہذیب کے آثار۱۹۷۴ء میں فرانسیسی ماہرآثارقدیمہ ڈاکٹر جین فرانسولیس نے دریافت کیے۔یہ تہذیب میسوپوٹامیہ اورمصری تہذیب سے قدیم ہے۔(3)۔
ماضیِ قدیم میں بلوچ قبائل کا کوہستانوں،صحراؤں،میدانوں،وادیوں، چراگاہوں، چشموں ،ندی نالوں کے آس پاس مال مویشی کے ساتھ خانہ بہ کوچ حالت میں گذران رہا۔چناں چہ قدیم بلوچی ادبیاتِ نظم ونثر بالخصوص بلوچی کلاسیک قصص میں فطرتی ماحول سے وابستہ عناصر:بادل، بارش، سمندر،جنگل(جھر،لذْ)،باغ،چشمہ،ندی،جھیل،تالاب ،جنگلی وپالتو حیوانات بہ شمول ہاتھی، گینڈا، شیر،ریچھ،چیتا،مم(بن مانس)،لگڑبگڑ،بندر،بھیڑیا،کتا،گیدڑ، لومڑی،بلی،سیخ خون (سیح)، گھوڑا، خر، اونٹ، بھیڑ،بکری، گائے، بیل،بھینس،ہرن،خرگوش،جی طعامہ(حشرات)،سانپ، اژدہا، مرغ، مور،سیسی، فاختہ، چکور،طوطی،گِہانچ،کرگس،شاہین،سی مرغ ،قدرتی جمالیات وحسنِ زمین، خوب صورت وادیوں ،پھولوں،شجروکاہ ،چرواہوں،کسانوں، دارگُڈعوخ(لکڑہارا) ودیگر کا کسی نہ کسی حوالے سے عمومی وغیرنظریاتی تذکرہ ملتاہے۔تاہم ماحولیات کے سرخیل عناصر نباتات و حیوانات کونابود کرنے سے اجتناب کادرس ’’بلُک تع کاونڑی ‘‘(بڑھیااورکوا)کے قدیم قصے میں نظرآتاہے۔بلوچی قصص میں مافوق الفطری عناصرکاعکس موجودہے،جیسے بلوچی قصص میں آسمان پراُڑتی پریاں زمین پرآکر جنگل ،باغوں اور تالابوں کی سیرکرتی ہیں۔جنوں، پریوں،دیووں اورشہزادوں کا مقابلہ ہوتا ہے۔ایسے بلوچی قصوں کی کئی ضخیم جلدیں شائع ہوچکی ہیں۔(4)۔
پرندے جوانسانی ضرورت ہیں۔ خوراک کے لیے ان کاشکار کیاجاتا رہا مگربلوچی نثرمیں ایسی ضرب الامثال موجود ہیں، جہاں کم زور پرندوں کے شکار سے اجتناب کادرس ملتاہے ،جیسے کھوہ لنگ ( چنڈول سے ملتاجلتابہ غیرتاج )پرندہ کی زبانی ضرب المثل ہے کہ :
ترجمہ:کھوہ لنگ نے کہا: آپ مجھ جیسے کم زورپرندے کوشکارکرتے ہیں،اللہ کرے آپ مجھ سے بھی زیادہ کم زوربنیں۔
واد�ئبولان بلوچستان کے بارے، محمدپناہ بلوچ کی بلوچی نثری تصنیف’’بولان تھنک‘‘ شایع ہوکرمنظرعام ہوچکی ہے جس میں ضمناً بلوچستان کے درخت وگیاہ ،پودے،جنگلی حیات،پرندے، سبزیات،فصلات وغلہ،بار برداری کے جان ور،مال داری وکاشت کاری کابالتصویراجمالی تذکرہ صفحہ ۱۴۶تا۲۵۱موجودملتاہے۔تصنیف میں نباتات وحیوانات کی رنگین تصاویر فطرتی ماحول سے دل چسپی کااظہار ہیں جہاں میرگل خان نصیرکی ایک نظم میں بلوچستانی درخت واشجارکوعقیدتاًسلام پیش کیاگیاہے ،کہ:
سلام تئی تل و لوپانی درئچک داراں
سلام دپ رہیں بولان! تئی تلاران
ترجمہ:سلام تیری وادیوں اورسرنگوں کے علاقوں میں پائے جانے والے درختوں اوراشجارکو۔سلام ، اپنے دہانوں سے راستہ دینے والی تیری چٹانوں کو۔
بلوچی مہماتی و رزمی نظموں میں جنگلی درندوں جومال مویشی وآدم خورتھے؛ سے مقابلہ اور انہیں مارنے کی نظمیں موجود ہیں۔اسی طرح حصولِ خوراک کے لیے شکاریات کاذکرہے۔تاہم ایسی نظریاتی نظمیں جن میں ماحولیاتی عناصر کومحفوظ بنانے کادرس ہے، بھی موجود ہیں۔جیسے پرندوں اوران کے بچوں پرترس کے حوالے سے حضرت علیؓ کے بارے ’’بازاورکبوتر‘‘کی نظم ہے جس میں کبوتراوراس کے بچوں کی حفاظت کی جاتی ہے جب کہ بھوکے بازکوخوراک مہیاکی جاتی ہے۔(5) ۔
شہداتارتے وقت ،شہدکی مکھیوں اوران کے بچوں پرترس اوران کی حفاظت کے لیے ’’بینغ ‘‘ (شہد)کی نظم موجودملتی ہے۔(6)۔
ثمرداردرخت و اشجارجیسے پِھیر( پیلو)کوبے رحمی سے کاٹ کربربادکرنے سے منع کرنے اوران کی حفاظت(رکھ) کی طرف متوجہ کرنے کے لیے بہاذُرہانس کی شگفتہ نظم ’’ چِھت کُتاعی ‘‘(لُوٹ پاٹ) موجودہے۔(7)۔
بلوچ سماج میں قدرتی اشجارکی بقاکے لیے کچھ اصول مرتب ملتے ہیں،جیسے: اکڑہ(آک) کے پودے کے ساتھ چھوٹے بچوں کے سرکے تراشیدہ بال ٹانکے جاتے ہیں۔ اس لیے اس کوجلانے کے لیے نہیں کاٹاجاتا۔’’ایجورکھ‘‘ (Ejrukh) اور’’کھوہ نہ ایر‘‘(پنیر،Khonair)کے چھوٹے پودوں کوبھی جلانے کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا کہ ان کے پتوں سے میت کوثواب کیاجاتاہے یعنی غسل دیاجاتاہے۔جس درخت سے علاج کے لیے پتے توڑے جاتے ہیں اس کاکچھ موکھ(معاوضہ) بہ طور آٹایادانہ اس کے پیڑکے ساتھ ڈال دیاجاتاہے۔یعنی اسے بلاجواز کاٹنے سے محفوظ بنانے کا ایک معمولی قدغن موجودہے۔گویا بلوچ سماج کو ماحولیاتی بگاڑروکنے کاشعوری احساس بہ ہرصورت دامن گیررہا۔ مال مویشی جن پرحیاتِ بنی نوع انسان کاانحصارہے، کی مناسب دیکھ بھال سے، مال داروں کو لاپروانہ رہنے کی تلقین ملتی ہے ،جیسے بہاذُرہانس کی نظم میں ہے کہ :
ترجمہ: اونٹوں کاگلہ بہ غیرمناسب دیکھ بھال کے کھلا نہ چھوڑدیناکہ یہ بابرکت پیغمبروں کا مال رہے ہیں۔
بلوچی شاعری میں اگرچہ جنگلی حیات،گیاہ واشجار،طیور،مال مویشی،سبزہ اورحسن فطرت کا تذکرہ موجودہے لیکن رفتہ رفتہ اب بہت سے پرندے ،جان داراورجنگل کاقدرتی ماحول معدوم ہوتاجارہا ہے ،جیسے:نیل گائے، خرگوش، کونج، سیسی، ہرن،شیر، چیتے، لگڑبگڑ، بھڑیے، گورپٹ اورریچھ وغیرہ کئی علاقوں سے بِل کُل ختم ہوچکے ہیں۔ اس کی وجہ انسانی آبادی میں اضافہ ،غیرسازگارماحول اورمناسب انتظام کاری نہ ہوناہے۔ماضی بعیدمیں بلوچستان کے کئی علاقوں میں مغل حملہ آوروں نے جب قدرتی چشموں کوبندکردیاتھاتوپانی کی نایابی سے نہ صرف انسان نقل مکانی کر گئے بل کہ جنگل حیات کو بھی نقصان پہنچا۔چرندپرند کوچ کرگئے یامرگئے تھے۔بلوچی نثرمیں اس جنگی جرم کابہ اندازِ نفرت اظہار ملتاہے۔ تاہم بلوچ فطرت سے مایوس نہیں اوروہ متوکل علی اللہ ہوکرفطری ماحول کے بہ ترہونے کی امید لگائے رکھتاہے، جیسے اللہ بشک بُزدارکے مجموعۂ کلام کانام ’’ھشکیں رکھ سوزبنت‘‘(خشک چراگاہیں پھر ہری ہوں گی) نظرآتاہے۔ (8)۔
جدیدبلوچی شاعری میں حافظ خان محمدلانگوانی کے ہاں ،عہدِجدید کی مشینی طرزِ زندگی کے سبب، فطرتی ماحول کے معدوم ہوتے چلے جانے کی کرب ناک صورتِ حال پر خیال آرائی ملتی ہے:
ترجمہ:چمن کے سبزپرندوں کا’’ہُوہُو‘‘ اورنہ ان کواڑانے کے لیے کسانوں کی آواز’’ ہا،ہا ‘‘باقی رہی ہے۔نہ کونجوں کی ڈاریں ہیں جو گلے میں ڈالے جانے والے زیور ’’کٹ مالا‘‘کی مانندہوتے تھے۔ ارے کونجو!ہمارے سروں کے آسمان پر’’چکرلگاؤ، چکرلگاؤ ‘‘کے بلوچ بچوں کے نعرے ہیں،نہ ہُدہُد پرندہ نظرآتاہے اورنہ ملکہ سباکی طرح کی خوش حال حکم رانی نظرآتی ہے۔نہ بلبلوں کے فریادی نغمے ہیں اورنہ گلوں میں خوش بُوباقی ہے۔نہ نذْغ کی خوش بودارگھاس بچی ہے اورنہ گؤانش کاپودا رہ گیاہے ،نہ پھرپُھک کے سرخ پھول کے حامل درخت باقی رہے۔نہ ہی سادہ جھونپڑیاں باقی رہیں ،نہ ہی اب کوئی غاروں کاصحت مندقدرتی سایہ استعمال کرتاہے۔اب تولباس اوربرتن گلاس ربڑکے بن کرآ رہے ہیں۔ گھرگھرمشینوں کاشوروغل ہے۔ سیمنٹ کے مکانوں میں توانسان کادل تنگ آجاتاہے۔
عالمی زبانوں کی ادبیات سرحدوں سے ماوراہوتی ہیں جو کسی خاص دائرے میں رہ کرپروان نہیں چڑھتیں۔اس طرح بلوچی ادب کو محض ماحولیات(Ecology)تک محدودتصورنہیں کیاجاسکتا۔ بلوچی ادب میں مغربی شاعرِفطرت، ورڈزورتھ کی طرح کافطرت اورماحولیات کے بارے کوئی منظم تحریک کی نشان دہی عنقاہے ۔تاہم خواجہ فریدؒ کی اصطلاح’’روہی‘‘ اوراقبال ؒ کی نظم’’ ہمالہ‘‘ کے مثل منتشرتصورات موجود ہیں۔جوں جوں دنیاکی انسانی آبادی میں اضافہ ہورہاہے،قدرتی وسائل میں کمی آتی جارہی ہے۔ بلوچستان میں بھی یہ صورتِ حال درپیش ہے۔انسان نے ضروریاتِ حیات کے لیے حرص وہوس سے فطرتی وسائل کابے دریغ استعمال شروع کردیاہے جس سے فطرتی حیات وصحت بخش خزانوں میں کمی آتی جارہی ہے ۔بالخصوص کوہ ساروں پر سے درختوں کوکاٹ کرنیست ونابودکرنا؛تعمیرات کے لیے استعمال ،تجارتی بنیادپرفروخت کرنااورکارخانوں کابے ہنگم قیام، لمحہ فکریہ بن چکاہے۔ پائندہ بلوچ کے متعددموضوعاتی بلوچی ’’ چھیارگال‘‘ (رباعیات) میںیہ احساس زیاں پایاجاتاہے۔ان کے ہاں فطرتی ماحول کی جمالیاتی عکاسی اور قبائلی بلوچ خانہ بدوشانہ گُذران کاعکس بھی جھلکتاہے۔ وہ سبزہ وگل ،نباتاتی وآبی ذخائر کی اہمیت ،حفاظت اوردرست استعمال سادہ بیانیہ اندازمیں اجاگر کرنے نیزجنگلی حیات و اشجارکو معدومی سے بچانے اورماحولیاتی آلودگی کے بارے متوجہ کرنے کی چارہ جوئی کرتے نظرآتے ہیں،جیسے:
ترجمہ:بلوچوں کاوطن:اے بلوچوں کاوطن،تُو مکران اورپشین سے ماورااور آگے ہے۔سبزہ وشجرسے تو کس قدرحسین رنگ ہے۔چاہے ایجورکھ،پنیر،اکڑہ اورجھؤانھاں کے چھوٹے پودے ہوں،تمہار ی سرزمین انہی بوٹے اوربوٹیوں سے زیباہے۔
ترجمہ:درخت:چراگاہوں کاسبزہ ،قدرت کی کھیتی ہے۔میدان ہوں،راغ ہوںیابلندوبالاکوہ سار ۔ چراگاہ کاسبزہ ؛جان داروں کی زندگی کاوسیلہ ہے ۔درخت نہ کاٹے جائیں کہ یہ قدرت کاخوب صورت منظرہیں۔
درشک
درشک عاں گوں ساہ دارعئے روزعی اوارعیں
درشک عاں پھہ ساہ دارءِ زِیندعئے مدارعیں
درشک عاں مہ جنءِ،ڈِْگْارعئے پوشاک عں
درشک عئے مُنہ آوعہ زمیں گُل زارعیں
ترجمہ:درخت:درختوں سے جان داروں کی روزی وابستہ ہے۔درختوں پرزندہ حیات کی زندگی کاانحصار ہے۔درخت نہ کاٹے جائیں کہ یہ زمین کی پوشاک ہیں۔درختوں کی حرمت وشان سے زمین گل زار ہے۔
ترجمہ:کھلیر:رب نے چراگاہوں میں کاشت کاری جاری رکھی ہوئی ہے۔دیکھیے،کھلیرکادرخت سرخ پھولوں سے کس طرح گل بارہے۔کھلیرکے درخت نہ کاٹے جائیں کہ یہ بھوک کے اوقات میں مثلِ باغ ہیں۔ان کے سرخ ڈیلھے ایسے نظرآتے ہیں جیسے لعل تیارکیے گئے ہوں۔
ترجمہ:پِھیر:پِھیر(پیلو)ازل سے جنگل کادرخت ہے۔یہ طیور،مال ا ورانسان کی خوراک ہے ۔پِھیر کاٹ کرظلم نہ کریں کہ یہ جنگل اوربیابان کامیوہ ہے۔ذرااس کے نفیس اور شفاف دانوں پرتونظر ڈالیں۔
ترجمہ:پطریق:پطریق کے دانے قمتی اورکمال زیب دارہیں۔انگورکے بیل اورانارکے درخت میوہ دار ہیں۔پھلوں کے باغات لگائے جائیں کہ یہ مولاکریم کے انعامات ہیں۔ انسان کے لیے یہ عمل ،ثواب کا ثواب اورروزگارکاروزگارہے۔
ترجمہ:کھؤر:پُھلاہی درخت کے ساتھ پتے اورٹہنیاں ہیں۔پُھلاہی سے بکریاں خوش نہال ہیں۔ پُھلاہی نہ کاٹے جائیں کہ یہ کوہستان کاجمال ہیں۔پُھلاہی پھول کی خوش بوکے سامنے عطریات دست بستہ اورنگوں سار ہیں۔
ترجمہ:زان58وَر:زانورکی بیل،بلند چٹانوں کے ساتھ لٹک کرجھولتی رہتی ہے۔اس کی سبزلڑیاں8 ایسی ہیں جیسے بالوں کی لٹیں۔ان بیلوں کونہ کاٹیں کہ یہِ خُدائی پیداوارکی قدیم نشانیاں ہیں۔ٹہنیوں پر زانور کے شفاف سرخ دانے ایسے ہیں،جیسے کسی لڑی میں پروئے ہوئے لعل ہوں۔
ترجمہ:گزلی:میں گزلی(بیدمجنوں)کادرخت ہوں اوربہتی ندی کے کنارے کی کاشت ہوں۔ سوائے ماہِ ساون کے،سدابہارسبزدرخت ہوں۔میرے پیڑسے گؤاز(چھلکے)نہ چھیلے جائیں کہ میری شاخیں خشک ہوجائیں گی۔میں آپ کے اونٹوں کے دن اور رات کی مفت خوراک ہوں۔
ترجمہ:گز(بیدمجنوں کلاں):میں بے خار درخت ہوں اورلوگ میری مثال دیتے ہیں کہ’’ ایسے بے خار جیسے گز!‘‘نرم کوش ہواسے میری شاخوں کے لہرانے کی رؤنق اورجمال دیکھیے۔مجھے اپنے کھیتوں میں کاشت کیجیے کہ میں قلموں کی صورت اُگتاہوں۔اب میری نسل ختم ہورہی ہے ،ابترصورتِ حال ہے۔
ترجمہ:جؤر:جؤرکابُوٹا،اُسی مشہورِ زمانہ مجنوں کارفیق ہے۔اِس کی ٹہنیوں نے سرپرسرخ پھول لادرکھے ہوتے ہیں۔ جؤرکے پودے کونہ کاٹاجائے کہ اس کابیج معدوم ہوجائے گا۔اگرچہ یہ زہریلا ہے مگر، زام(یم)ندی کا سنگھار ہے۔
ترجمہ:کھونُر(بیر):بیر،ایک ایساباغ ہے جوکھیتوں کاجمال ہے۔اس کاسرخ دانہ ،رب کی کاری گری کا کمال ہے۔بیرکے باغات سے مخلوق خوش وخرم ہے۔بیرنہ کاٹے جائیں،ورنہ زوالِ خوراک ہے۔
ترجمہ:کھجور:کھجورکے دانے،باطنی خواص کی بہ دولت دل بہارہیں۔اگرکھجورکاتوشہ ہوتوتاریک راتیں بھی روشن ہوتی ہیں۔انسان کاگذران کھجورکے باغوں پرہے۔کھجورکے درخت اگائے جائیں کہ یہ زمین کا سنگھارہیں۔
ترجمہ:کاہیر:جنڈکادرخت بلندقامت اوربلند شان ہے۔یہ دُورسے نظرآتاہے اور راستہ بتانے کانشان ہے۔جنڈکی ٹہنیاں پالتومال کی خوراک ہیں۔جنڈکاٹ کربربادنہ کیے جائیں کہ یہ سامانِ زیست ہیں۔
ترجمہ:سربلندپہاڑوں پرکس خوب صورتی کے ساتھ سبزپتوں کاحامل ہے؟کس خوب صورت اندازمیں زیتون کی شاخ پک کرپھل دانوں سے لدی ہوئی ہے۔اس کی ٹہنیاں نہ کاٹی جائیں کہ یہ بابرکت درخت ہے۔اگرزیتون نہ رہاتوپھرخاک بچا؟
ترجمہ:جنگل:آپ نے ہرن و صیدشکارکیے،یہ جنگل کامال تھے۔ہمارے وطن کے سیسی(چکور) پرندے مارکر ان کی نسل معدوم کی۔اب سردیوں میں کیسے گذاراہوگا،جب آپ نے جنگل کاجنگل جلاڈالاہے۔
ترجمہ:کوہستانی ندی:میری شفاف آب جو،جان داروں کی سانس ہے۔اس کو ضائع نہ کریں کہ یہ زندگی کی آب جوہے۔انسان ہو،مال ہو،طائرہوںیاسبزہ ؛ہرجان دارکی ہردم مجھ سے رسم وراہ ہے۔
ترجمہ:کل(مشین):مشینیںآگئی ہیں،سرنگ کھودنے والی۔زمین کوادھیڑنے والی ، گینتی کی مانند۔لوگ سمجھتے ہیں،یہ ترقی کے آثارہیں مگریہ تواب ہمارے کوہ سارکھائے جارہی ہیں!
ترجمہ:کالک:اب شہروں اورسڑکوں پرمسلسل ایک گھور اورشورہے۔پٹرول وتیل دن رات جل رہے ہیں۔اب ہم نے دھواں ناک اورمنہ سے پھانکناہے۔اس کالک کاگھراورمکان ہمارے پھپھڑوں کے تہہ خانے ہیں۔
ترجمہ:قصرومحل تعمیرہوکرسربلندہوتے جارہے ہیں۔کارخانے اورشاہ راہ پھیلتے چلے جارہے ہیں۔چمن کی چراگاہوں اورکاشت کی زمینوں کوحصارمیں نہ لو۔اس طرح زمین کے خوب صورت چہرے کوڈھانپ کر اوجھل کرتے چلے جارہے ہو۔
ترجمہ:زمین کابوجھ:آپ لوگ ،زمین سے اُڑ کرچانداورستاروں کوکھوج رہے ہو۔زمین سے اُڑ کراس کے وزن کوکم کرتے جارہے ہو۔کائناتی ترازوکاوزن کہیں کم اورکہیں زیادہ ہورہاہے۔یوں قیامت قائم کرنے کاخودہی سامان کررہے ہو۔
ترجمہ:اخلاص کے پھول:زمین کاخوب صورت گذران، حریصوں نے بدصورت بنادیا۔نیلے شفاف آسمان کے رنگ کوبارودکے گردوغبارنے اندھیرے میں بدل دیا۔آئیے،آب جوئے حیات کے کنارے، باغیچوں میں اخلاص کے پھول اگائیں کہ گلاب کا خوب صورت رنگ ،سیاہ دھوئیں نے اوجھل کردیاہے۔
ماحولیات میں پانی کومرکزی حیثیت حاصل ہے جس کے بہ غیر زندگی نا ممکن ہے۔مارکسی نظریہ کے تحت اگرچہ روٹی،کپڑااورمکان انسان کی بنیادی ضرورت ہیں مگرجب قناعت کا دامن چھوٹ جائے توپھرخواہشات لامحدودہوکر ہل من مزیدکی صورت اختیارکرلیتی ہیں۔ جائزناجائزکی تمیزختم ہوکر ذاتی خودغرضی سے ہرشئے پرقبضہ کی کوشش شروع ہوجاتی ہے۔سائنسی ترقی نے اس سوچ کومہمیز لگائی۔ اس طرح انسان خود ماحولیات کادشمن بن گیا۔امیرملکوں میں تیل کی زیادہ کھپت ماحولیاتی آلودگی کابڑا محرک بنا۔ فیکٹریوں،کارخانوں اورمشینری سے زیادہ دولت مندبننے کی کوششوں نے جہاں زمینوں، کھیتوں اور پہاڑوں کوادھیڑڈالاوہاں فضائی ،بری اوربحری سطح پرماحولیاتی آلودگی پیداہوئی۔زر ،زمین اورپانی پر قبضہ کی کوششیں شروع ہوئیں۔دوطبقوں امیراورغریب کافرق واضح ہوا ۔جنگوں اور اسلحہ کی دوڑ کا لامتناہی سلسلہ چل نکلا۔کہیں سرمایہ داری عروج پرپہنچی اورسامراج راجیت کابول بالاہواتو کہیں قحط کی صورت حال پیداہوئی۔ اب خطرناک بموں کے تجربوں نے انسان کواپنی بقاکے حقیقی خطرے سے دو چارکردیا ہے۔اس صورتِ حال سے عالمی طورپرفطرتی ماحول متاثرہواجس میں بلوچستان وپاکستان برابرشامل ہیں۔یہ ماحولیاتی آلودگی، جان داروں کی زندگی کے لیے مستقل خطرہ ہے۔ دھواں،پلاسٹک اشیاء جوگلتے نہیں اور زہریلے پانی سے محلے،گاؤں، شہر،کھیت،فصلات، نہریں،دریااورسمندرآلودہ ہیں جس میں اضافہ ہورہاہے ۔آلودگی سے کینسر(بلوچستان میں کینسرکے۸۰فی صدمریضوں کوعلاج کی سہولت میسرنہیں)،دمہ،ناقص گردے ،زبونئ قلب،ذیباطیس،فشارِخون اورڈینگی جیسی نئی بیماریاں مسئلہ بن چکی ہیں۔بہ غیرکسی ضابطہ کے کارخانوں اورمکانات کی تعمیرسے قدرتی ماحول تیزی سے متاثر ہو رہاہے۔زمین پرجب زیادہ فیکٹریاں اورمکانات تعمیرہوجائیں توجنگلات ا ور زراعت کاخاتمہ بل کہ مویشی اورپرندوں کی پیداوارمیں بھی کمی کاامکان ہے۔زمینی درجۂ حرارت بڑھ جاتاہے۔بارشیں کہیں کم، کہیں زیادہ ہوتی ہیں ۔ کوہستانِ حمالہ اور قطبین کے برف ذخائر گلیشیئرختم ہورہے ہیں۔سائنس دانوں کے مشاہدوں اورسابقہ ریکارڈکے مطابق اس وقت زمین پرکم مقدارمیں برف باقی رہ گئی ہے۔(9) اس ضمن ایشیائی ترقیاتی بینک نے ایک رپورٹ جاری کی جوچشم کُشاہے ۔اس کے مطابق:
’’آنے والے سالوں میں موسمیاتی اورماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے درجۂ حرارت بڑھ جائے گا۔پاکستان،افغانستان،تاجکستان اورشمال مغربی چین میں اگلی صدی کے آغازتک اوسط درجۂ حرارت میں۸ڈگری تک اضافہ ہوجائے گا جس سے لاکھوں افرادکی ہلاکت کاخدشہ ہے۔ایشیائی بحرالکاہل سے بہت سے خطوں میں بارشیں پچاس فی صد تک بڑھ جائیں گی جن سے خطرناک سیلاب آئیں گے۔ فصلوں کی پیداوارمیں کمی آئے گی اور غذائی قلت بڑھ جائے گی جس سے خطے کے کروڑوں افرادمتاثرہوں گے۔ ایشیائی بحرالکاہل کاخطہ جس میں پاکستان اور بھارت واقع ہیں کے بیس بڑے شہروں کی دوتہائی آبادی کو آئندہ چندعشروں میں ماحولیاتی نقصانات کاسامناکرناپڑے گا۔ چٹانوں کوپہنچنے والے نقصان سے سیاحت اورماہی گیری کی صنعتیں تقریباًتباہ ہو جائیں گی۔صدی کے اختتام تک جنوبی ایشیاکے کچھ ممالک میں چاول کی پیداوار نصف کے قریب رہ جائے گی۔ملیریااورڈینگی کے امراض میں اضافہ ہوگا۔آئندہ تیس برسوں میں غذائی قلت ،بیماریوں اوردوسرے مسائل کی وجہ سے لوگ اپنے ملکوں سے ہجرت کرنے پرمجبورہوسکتے ہیں جن کاامکانی طورپررخ اسٹریلیاکی طرف ہوگا۔(10)۔
ایسے بڑے ماحولیاتی مسائل کے علاوہ گنجان آبادشہروں میں چھوٹے ماحولیاتی مسائل بھی ابھرکرسامنے آرہے ہیں جن کی آئے دن اخبارات میں نشان دہی ہوتی ہے،جیسے ایک اخبارلکھتاہے:
’’شورکی آلودگی سے عوام اذیت میں مبتلا۔پریشرہارن،بغیرسلینسرموٹرسائیکل اور چاندگاڑی[رکشہ]اورشادی بیاہ میں بجنے والے سپیکرزکی زوردارآوازوں سے جان چھڑائی جائے۔سپیکرپراذان دینے والے کئی مؤذن حوالات بندہوئے، جرمانے اداکیے،بے ہنگم شوروغل پیداکرنے والے عناصرکے خلاف بھی کارروائی کامطالبہ۔(11)۔
ٌ بلوچی شاعری میں فطرتی ماحول کو متاثرکرنے والے ایسے عوامل و مسائل کابرملا ادراک نظر آتاہے۔انسانی وسائل کوزلزلے،سیلاب وطوفان،بجلیاں،آگ نقصان پہنچاتے ہیں۔زمین پرہوا، روشنی اورپانی قدرتی طورپرموجودہیں۔گوان میں اضافہ ممکن نہیں لیکن منصوبہ بندی سے ان کابہ تر استعمال ہوسکتاہے۔ماحولیاتی مسائل کے تدارک کے طورپرکارخانوں اورشہری کالونیوں کوکم سے کم زرعی رقبوں تک پھیلنے دیناہوگا۔زرعی رقبوں اورجنگلات کونہ صرف محفوظ بناناہوگابل کہ آبادی اور ماحولیاتی آلودگی بڑھنے کے سبب ان کو مزیدترقی دینی ہوگی۔پانی کومحفوظ کرنے کے لیے ڈیم ذخیرے بنانا،کھیتی باڑی سے بنجرزمین کوآباد کرنا،غیرآبادمقامات کودرختوں بیجوں کے ہوائی چھڑکاؤسے سرسبز بنانا،ہارپ سسٹم سے بادلوں کو کنٹرول کرنااور اپنے خطے پربارش برسانے کی ٹیکنالوجی کوترقی دے کرماحولیاتی مسائل کوکم کرنا ہوگا۔ مویشیوں کی پیداواربڑھانے کے لیے گھاس،درخت پتے،جڑی بوٹیاں اوروافر اناج اگانا ہوگا۔ آئندہ نسلوں کی بقااورگلوبل وارمنگ کوکم کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر شجرکاری درکارہے کہ ایک سادہ درخت سال میں۲۴کلوگرام کاربن ڈائی اکسائیڈگیس جذب کرتاہے۔ سوسے ایک سوبیس کلوگرام آکسیجن فراہم کرتاہے۔شہروں اوردیہاتی گھروں میں گملے اورپودے اگانے ہوں گے۔ماحولیات کے موضوع کو مؤثراندازمیں شاملِ نصاب کرناہوگا۔اس وقت ترقی یافتہ ممالک بھی ماحولیاتی مسائل سے دوچارہیں،جیسے چینی حکام اپنے ملک میں بارش کی کمی نیزنباتاتی فقدان کورفع کرنے کے لیے جدیدسوچ اورمنصوبہ بندی کے لیے کوشاں نظرآتے ہیں۔چین نے ۲۰۱۲ء میں اعلان کیاکہ وہ موسم کوکنٹرول کرنے کے لیے 168ملین ڈالرٹیکنالوجی پرصرف کرے گاجوبارش برسانے میں مدددے گا۔ِ انہوں نے ماحولیاتی بہ تری کے لیے مکانوں کی تعمیرمیں تبدیلیاں کرنی شروع کردیں۔چھت کے بارش کے پانی کوپائپوں سے نیچے اتارکرزیرزمین تالابوں میں ڈال کراسے زراعت کے لیے استعمال کرناشروع کردیا۔ پہاڑی نمامخروطی مکانات کی ہرمنزل کی بیرونی دیواروں کے ساتھ،پودوں کے لیے سیمنٹ خانے بناکرپودے لگاناشروع کردیے جہاں ہرکھڑکی کے سامنے سبزپودا موجودہے۔(12) اس سوچ کو ہرخطے میں اپنانے کی ضرورت ہے۔
ماحولیاتی مسائل میں کمی کے ضمن میں ایشائی ترقیاتی بینک نے کچھ تجاویزپیش کیں جوقابلِ توجہ اور متقاض�ئ عمل ہیں :
ماحولیات اورزراعت پرسرمایہ کاری ناگزیرہے۔پانی جس پرمستقبل کی جنگوں کا خدشہ ہے ۔فصلوں کی سیرابی کے لیے ہرچھوٹے بڑے پہاڑی درے پرچھوٹے بڑے ڈیموں کی تعمیراور قطراتی آب پاشی طریقہ اپناناہوگا۔ پیداوارمیں اضافہ کے لیے گندم اورچاول کی نئی اقسام دریافت کرنی ہوں گی۔ زرعی زمینوں کوبچانے کے لیے ان پرغیرضروری تعمیرات کو روکناہوگا۔نہروں اوردریاؤں کاپانی تیزی سے آلودہ ہوکرناقابل استعمال ہورہا ہے جس سے سمندری حیات اورسمندری غذا کی پیداوارکم ہورہی ہے۔درخت لگا کرجنگلات میں اضافہ اوردرخت کٹائی کے لیے سخت قوانین کی ضرورت ہے۔ (13) ۔

حوالہ جات وحواشی

۔1۔شاہ محمدمری،ڈاکٹر(۲۰۱۶ء)بلوچ مہرگڑھ سے تشکیل ریاست تک،جلداول،طبع سوم،کوئٹہ،سنگت اکیڈمی آف سائنسز،فاطمہ جناح روڈ،ص:۳۷
۔2۔محمدرضابلوچ(۲۰۰۷ء)بلوچستان قدیم تہذیبوں کاسنگم،کوئٹہ،قلات پبلشرزرستم جی لین جناح روڈ، ص:۳۵
۔3 ۔شاہ محمدمری،ڈاکٹر(۲۰۱۶ء)بلوچ مہرگڑھ سے تشکیل ریاست تک،محولہ بالا،ص:۷۳
۔4۔محمودمومن بُزدار،حاجی(۱۹۷۰ء) گیذی کسو،پنچمی،کوئٹہ،بلوچی اکیڈمی،ص:۱۵۳
5. Dames, M. Longworth (1907/1988) Popular Poetry of the Baloches, Vol. I-II, II ed.; Quetta, Baluchi Academy, Mekran
House, Sariab Road, P. 154

۔6۔مِٹھابِن لنگرقیصرانی:’’بین عغ شئیعر‘‘مشمولہ بلوچی کلام،بلوچی تحقیق مرکز،دیراغازی خان، مخطوطہ نمبر۵۸،ص:۱
۔7۔بہاذُر ہانس قیصرانی: بلوچی کلام،بلوچی تحقیق مرکز،دیراغازی خان، مخطوطہ نمبر ۴،ص:۸
۔8۔اللہ بشک بُزدار(دسمبر۱۹۸۸ء)ھشکیں رکھ سوز بنت، مقامِ اشاعت و ناشر ندارد۔
۔9۔الجزیرہ ٹیلی وژن نشریات،رپورٹ،۱۸فروری۲۰۱۷ء
۔10۔ماحولیاتی تبدیلیاں:سنگین خطرات(اداریہ)روزنامہ جنگ ملتان،۲۵جولائی ۲۰۱۷ء،ج:۱۵، ش:۲۳۱
۔ٌ11۔روزنامہ المنظور،ڈیرہ غازی خان،۲۴جولائی۲۰۱۷ء،جلد:۵؛شمارہ:۲۰۳
12. Face book world economic forum, Accessedon 10 March 2017
۔13۔ماحولیاتی تبدیلیاں:سنگین خطرات،محولہ بالا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے