سادہ اور اق کا اِک ڈھیر لیے بیٹھی ہوں
اِن میں اُلجھی میری پیاسی نظر یں
پڑھنا چاہیں وہی الفاظ جو معدوم ہوئے
یہی اور اق ، یہی لفظوں سے خالی اور اق
تھے مزین یہ کبھی پھول سی تحریروں سے
سامری جیساتھا لکھنے والا
ایک اِک حرف میں وہ جادو سمودیتا تھا
اور اِسرار کہ کھلتے ہی چلے جاتے تھے
روز دہراتے تھے ، تحریر کیا کرتے تھے
وہی اِک بات کہ جوروز ہمیں
اَن کہی اور نئی لگتی تھی
شدتِ شوق کو تاخیر گوارا کب تھی
اس لیے فیکس کو ہی حیلہِ ترسیل بنا رکھا تھا
جانے کیا ہوتا ہے کیوں ہوتا ہے ، پر ہوتا ہے
کبھی راہیں کبھی منزل کہیں کھوجاتی ہے
اب یہ عالم ہے کہ الفاظ بھی معدوم ہوئے
پڑھنا چاہیں آنکھیں جنہیں میری آنکھیں
سادہ اور اق کا اِک ڈھیر لیے بیٹھی ہوں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے