۔۱۔ الوداعی بیانیہ
وہ
نازک اندام
نازک دل
اور
پہاڑوں جیسے ارادوں والی
حسین تتلی
اڑتے اڑتے تھک گئی ،
تو
منوں مٹی تلے
سونے چلی گئی۔

۔۲۔ جدائی
تمہاری
آخری ?رام گاہ تک
جانے والا راستہ
پل صراط کی طرح
لمبا اور دشوار تھا
اور
تمہیں وہاں پنہچنے کی
جلدی تھی
لیکن
تم یہ جان لو
کہ اب میرے لئے
واپسی کا
کوئی راستہ نہیں ہے
کہ
تمہاری منزل اور
میرے پڑاؤ کے
کے درمیان
ایک عالمِ برزخ بچھا ہے
اور میری روح
اس میں
معلق ہو کر
رہ گئی ہوں

۔۳۔ زادِ راہ
وہ
چلی گئی
اور میں نے
اس کے قدموں سے
لدا
کچا آنگن
اپنے دل پر اوڑھ لیا۔

۔۴۔ بے بسی
تمہاری پیشانی
آنکھوں
اور گالوں پر
حاضری بھرتے
(اور سیراب ہوتے)
میرے بوسوں نے
میری روح کو
تمہیں
پھر سے پانے کی
ازل گیر
پیاس میں
مبتلا کر دیا۔

۔۵۔ پرانی باتیں
برسوں پہلے کا قصہ ہے۔۔
لیکن اب من کا حصہ ہے
جاڑے تھے وہ۔۔
زور کے جاڑے
اور تمہارا کچا آنگن۔۔
تم ہاتھوں میں
ٹوپی سویٹر اور دستانے
پکڑے
ہم کو ڈھونڈھا کرتیں۔۔
پکڑ پکڑ کر ڈھانپا کرتیں۔
ہم بچوں کے یخ ہاتھوں کو
اپنے ہاتھ سے تاپا کرتیں۔۔
(ہاتھ بھی جیسے انگیٹھی تھے۔۔)
اور تمہارا سایہ بھی تب
ٹھنڈی دھوپ میں
گرم شال کے جیسا لگتا۔۔
جانے کیسا کیسا لگتا۔۔
عمریں
بیچ میں بہہ گئیں اب تو۔۔
لمس،
یاد میں رہ گئے اب تو
۔۔۔
اب کے جاڑے ہاتھ تمہارے
اپنے ہی سائے کو اپنے
اوپر کھینچ کے اوڑھ چکے ہیں۔
جیون کے کچے آنگن میں
(کچے اور ٹھنڈے آنگن میں)
ہم کو تنہا چھوڑ چکے ہیں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے