میں نے اُسے درخت کے روپ میں دیکھا ہے
کہسار کی کوکھ سے جنمے درخت کے روپ میں
اُس کی اٹھان میں اڑان ہے
اور تنے میں طنطنہ
اُس کی شاخیں سلاخیں ہیں
اور اُن پر بیٹھنے والے طائر۔۔۔۔۔۔ شاعر
اُس کا وجود سُرخ پتوں سے بھرا ہوا ہے
اور اُس کا پھل سیاہ رنگ کا ہے
ذائقے میں تُرش
اُس کا سایہ ہے
نہ ہم سایہ
وہ خود رو ہے
اور خوددار
اُس کی جڑیں پیچ دار ہیں
اور زمین کی گہرائی میں موجود معدنیات
تک اُتر چکی ہیں
اُس کی کشیدمیں نمک ہے اور کرومائٹ
وہ جانتا ہے
زمین کے حق کو
اور حقیقت کو
اُس کے سخت تنے اور طنطنے کے پیچھے
لوبان جیسی خوشبودار گوند بھی ہے
جسے اُس نے کھردری چھال سے ڈھانپ رکھا ہے
وہ ہمیشہ اپنی جڑوں کی طرف جھکا رہتا ہے
میں سوچتا ہوں
وہ آسمان کی طرف دستِ دُعا کی طرح
بلند شاخوں کو کیوں نہیں دیکھتا
کیا وہ نہیں جانتا
زمین درخت کی ماں سہی
آسمان بھی اُس پر باپ کی طرح مہربان ہے
میں جانتا ہوں
ایک دن اُس کے سُرخ پتے لہرانے لگیں گے
اور اُس کا پھل سفید ہوجائے گا
مگر اُس کا ذائقہ تُرش رہے گا
زمین کا نمک تُرش ہوتا ہے
اور آسمان کا شہد میٹھا

میں سوچتا ہوں
کیا وہ کبھی آسمان کی طرف دستِ دعا کی طرح
بلند اپنی شاخوں کو دیکھ سکے گا؟
کیا وہ کبھی چاند کو اپنی بانہوں میں بھر سکے گا؟؟
کیا وہ کبھی اپنے پھل کو میٹھا کرسکے گا؟؟

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے