قسام ازل کے والی نے حبیب جالب کے فطرت میں فطرت سے بغاوت کرنے والوں کے لیے بھر پور بغاوت بھر دیا تھا۔ اسی فطرتی بغاوت کے طفیل وہ روزِ اول سے آخر دم تک غریب نادار مفلس مظلوم و محکوم طبقے کی بھر پور انداز میں وکالت کرتا رہا۔ اور حق و صداقت کی صدا کو ببانگِ دہل بلند کرتا رہا۔ اور بُرائی کو علی الا علان بُرا کہتا رہا۔ نہ ستائش کی تمنا اور نہ صلے کی پرواہ۔ حق و سچ کی آواز کو عبادت سمجھتے ہوئے وہ ہر فورم پر آوازبلند کرتا رہا۔ ضیاء کو ضیاء اور ظلمت کو ظلمت کہنا کوئی جالب سے سیکھتا ۔ کبھی کسی کے کہنے پر مال ومتاع اور منصب پر ضمیر کا سودا نہیں کیا۔ ہمیشہ کوہِ چلتن کی چوٹی کے مانند سربلند رہا۔ وہ ایسا نڈر باغی تھا جس نے ظلمت کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا ۔اسی لیے تو اس نے یہ غزل تخلیق کی۔
اور سب بھول گئے حرفِ صداقت لکھنا
رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا
لاکھ کہتے رہیں ظلمت کو نہ ظلمت لکھنا
ہم نے سیکھا نہیں پیارے بہ اجازت لکھنا
ہم نے جو بھول کے بھی شہہ کا قصیدہ نہ لکھا
شاید آیا اسی خوبی کی بدولت لکھنا
سرکار دربار صاحب اقتدار اور صاحب منصب لوگوں سے جالب ہمہ وقت دور بھاگتا رہا۔ کبھی ان کی خوشامد نہیں کی ۔کیونکہ یہ طبقہ استحصالی طبقہ تھا اور ہے ۔ اسی طبقے نے اکثریتی عوام کے بنیادی حقوق غصب کئے ،لوگوں کو بے شعوری کی دل دل میں دھکیل کرانکے منہ سے نوالہ چھینتے رہے۔ انہیں ننگا اور بھوکا رکھا ۔بھلا ایسے لوگوں سے کیسے جالب سنگتی رکھتا یہی وجہ ہے کہ جالب نے کہا۔
رہنے کو گھر بھی مل جاتا چاک جگر بھی سِل جاتا
جالب تم بھی شعر سناتے جاکے اگر درباروں می
فرنگی کا جو میں دربان ہوتا
تو جینا کس قدر آسان ہوتا
مرے بچے بھی امریکہ میں پڑھتے
میں ہر گرمی میں انگلستان ہوتا
زمینیں میری ہر صوبے میں ہوتیں
میں واللہ صدرِ پاکستان ہوتا۔
کٹھن حالات کے ساتھ مقابلہ کرنا جالب کا جنون تھا۔ خطروں اور ظلمتوں سے کھیلنا اور انہیں شکستِ فاش دینا جالب کے زیست کا مقصد عین تھا۔ ظلمت کی آ ہنی دیواروں کو کاغذ کی ناؤ کے مثل اہمیت دے کر انہیں گرانے کی تگ ودو کرنا اس کی فطرت میں شامل تھا۔ مایوسی کی کیا مجال کہ وہ اس کے دریچہِ دل سے جھانکنے کی جرات کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اس طرح کے اشعار تخلیق کیے ۔
کٹی اب کٹی منزلِ شامِ غم
بڑھائے چلو پافگارو قدم
بدل جائے گا دیکھتے دیکھتے
یہ عہد خرابی ، یہ عہد ستم
مٹا کر اندھیروں کا نام ونشاں
اجالوں کی بستی بسائیں گے ہم
جو نظام ، قانون ، آئین، دستور اور سرکار اکثریتی عوام کا استحصال کرتی ہو اور جاگیرداروں سرمایہ داروں وڈیروں چودھریوں سرداروں اور نوابوں کے مفادات کا تحفظ کرتی ہو، جو قانون صرف مخصوص طبقے کی بھلائی کے لیے بنایا گیا ہو، جس سے غریب عوام کا استحصال مقصود ہو،اس دستور کے خالق چاہے سامراج ہو ڈکٹیٹر ہو یا نام نہاد جمہوری نمائندے جالب کا ان کے ساتھ جنگ رہی ہے۔ ایسے ہی نام نہاد دستور کے خلاف جالب کی مزاحمتی شاعری کس قدر خوبصورت ہے :۔
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا
میں بھی خائف نہیں تختہِ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا
کروڑوں عوام کے وسائل کو بے دردی کے ساتھ محض چند غاصب اور قبضہ گیر لوٹتے رہیں، عیاشیاں کرتے رہیں اور حکمرانی کرتے رہیں ۔اسی مقاصد کے تحت اس وقت کے حکمرانوں نے امریکہ سامراج کی خواہشات کی تکمیل کے لیے مذہب کو بطورِ ڈھال استعمال کرنا شروع کیا تو جالب ان کے سیاہ کرتوتوں کا پردہ فاش کرنے لگا۔
پاکستان ایک جمہوری ریاست ہے لیکن بد قسمتی سے جمہوریت سے زیادہ عرصہ آمریت کار فرمارہی ہے ۔جمہوری اداروں اور جمہوری عمل کو مستحکم ہونے نہیں دیا گیا۔ جمہوری تسلسل کے تعطل اور آمریت کے بار بار غلبے کی وجہ سے پاکستان میں جمہوریت کے معیار کا مسئلہ بھی در پیش رہا ہے ۔ اس لیے آمریت کا رستہ یہاں ہمیشہ ہموار رہا ہے۔ مگر آمرانہ حکومت خود کو جمہوری اصولوں کی پاسداری کرنے والوں میں ظاہر کرنے کے لیے بعض جمہوری خدوخال اختیار کرنے کی بے جا کوشش کرنے لگی تو جالب ان کے منہ سے سیاہ پردہ اُٹھا کر انہیں بے نقاب کرتے ہوئے فرماتاہے۔
ظلمت کو ضیا صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گہر، دیوار کو در، کرگس کو ہماکیا لکھنا
حق بات پہ کوڑے اور زنداں ، باطل کے شکنجے میں ہے یہ جاں
انساں ہیں کہ سہمے بیٹھے ہیں خونخوار درندے ہیں رقصاں
اس ظلم و ستم کو لطف وکرم، اس دکھ کو دوا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
کہتے ہیں کہ ظلم و ستم جبر و استحصال کا نظام تو چل سکتا ہے مگر نا انصافی پرمبنی نظام چلنا مجال ہے ۔ عدل و انصاف ایک ایسا کام ہے جس کی بدولت ملک و معاشرے میں استحکام پیدا ہوتا ہے۔ اور ہر وہ برائی جو کہ معاشرے کے لیے نا سور ،انتہائی مہلک اور تباہ کن ہوتی ہے ۔ انکی یخ کئی عدل و انصاف کی بالادستی سے ممکن ہوتی ہے بد قسمتی سے ہمارے ملک میں عدل و انصاف کو مستحکم نہیں ہونے دیا گیا ۔ اس حوالے سے جالب اپنے اشعار میں فرماتا ہے:۔
یہ منصف بھی تو قیدی ہیں ہمیں انصاف کیا دیں گے
لکھا ہے ان کے چہروں پر جو ہم کو فیصلہ دیں گے
ہمارے قتل پر جو آج ہیں خاموش کل جالب
بہت آنسو بہائیں گے بہت دادِ وفا دیں گے
مشرقی پاکستان کا بھیانک واقعہ بھلا کون کافر بھلا سکتا ہے ۔ بھلا جالب جیسا حساس انسان دوسروں کی دردکو اپنے اندر چُبھتے ہوئے محسوس کرنے والا کیوں کر چُپ رہ سکتا تھا ۔ہمارے اس وقت کے حکام کو ہوش کے ناخن لینے کے لیے جالب کا یہ قطعہ کوہِ ہر بوئی سے بھاری ہے ۔
محبت گولیوں سے بور ہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھورہے ہو
گُمان تم کوکہ رستہ کٹ رہا ہے
یقین مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے