رابعہ خضداری کا جو نہایت قلیل کلام دستیاب ہے اس کی اہم تاریخی حیثیت ہے جو صرف زبان میں نہیں بلکہ اس خطے کے معاشرے میں فکر کے سفر کی دستاویز ہے ۔ ان کی غزلیات پڑھنے سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ دسویں صدی عیسوی تک فارسی زبان کس حد تک صاف ستھری اور مہذب ہوچکی تھی۔ بلخ وخضدار کی فضاؤں میں پروان چڑھنے والی یہ فارسی گو، عرب نژاد شہزادی ، رابعہ بنت کعب، نمائندہ اعلی شعری اور تخلیقی صلاحیتوں کی حامل تھیں۔ مختصر بحروں کے اشعار میں موتی سے پرودیے ہیں۔ ان اشعار سے ان کی نازک خیالی ، لطافتِ فکر اور زبان و محاورے کے نہایت تخلیقی اور حسین استعمال کی نشاندہی ہوتی ہے ۔ ان کے اشعار میں پانی آذر، سے نقش بنانا سیکھتا ہے اور ہوا مانی سے رنگوں کا جادو سیکھتی ہے ۔ اردو یا کسی بھی اور زبان کی غیر صوفیانہ شاعری میں یہ مضمون برعکس باندھا جاسکتا تھا اور لکھا جاتا کہ آذر کی صورت گری ایسی تھی جیسے پانی پتھروں کو کاٹ کر نقش بنادے اور مانی کے موقلم نے جادو ہوا سے سیکھا۔ لیکن یہ مخصوص طرزِ فکر وہی ہے جسے تقریباً تین صدی بعد رومی نے :
قالب از ماہست شد نے ماازو
بادہ از مامست شد نے ماازو
کے قالب میں ڈھال کر زبان زدِ عام کردیا ، (گو آج اسے دُہرانے والے بیشتر غالباً اس کا مطلب بھی نہ سمجھتے ہوں)۔
کیا لازوال شاعری ہے کہ گیارہ صدی بعد بھی اسی طرح ترو تازہ ہے۔ اس پر جب خیال کیجئے کہ ان پر کیسا ظلم وستم کیا گیا تو دل پر چھری سی چل جاتی ہے ۔ ایک روایت کے مطابق ان کے محبوب ترک غلام بکتاش کو رابعہ کے بھائی حارث نے قتل کردیا تھا اور رابعہ کو ایسی کوٹھری میں قید کردیا تھا جس میں کوئی دروازہ یا کھڑکی نہ تھی۔ اس طریقے سے مجرم کو موت کے گھاٹ اتارنے کو ہی ’’دیوار میں چنوانا‘‘ کہا جاتا تھا جہاں بدنصیب سزا یافتہ انسان بھوک اور پیاس سے تڑپ تڑپ کر بڑی مشکل سے جان دیتا تھا۔
بلاشک رابعہ کا سب سے بڑا جرم عورت ہونا ہی تھا۔ ان کے بھائی حارث اگر کسی ترک کنیز پر عاشق ہوجاتے تو آسانی سے اُسے اپنے حرم میں داخل کر لیتے اور ان کی سلامتی پر آنچ بھی نہ آتی۔
ان کی چند غزلیات کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے :۔

غزل نمبر 1
سوسن وگُل سے لے کے ہوا ہر طرف سونا اور چاندی نچھاور کر رہی ہے۔
یہ ہوا قابلِ صد تعریف ہے کہ اس ہوا پر رحمت پر افشاں ہے۔
پانی نے آذر کے بنائے ہوئے بُت سے سینکڑوں نقوش حاصل کیے ہیں اور مصورمانی کے جادو سے ہوا نے سینکڑوں اثرات حاصل کیے ہیں۔ (پانی آذر اور ہوا مانی جیسا کام کرنے لگی ہے)۔
بادل انسان کی آنکھ کی مانند بن گیا ہے اور ہوا حضرت عیسیٰ کی مہرومحبت کا ثبوت بن گئی ہے ۔
کہ باغ میں بادل ہر لمحہ موتی برساتا رہتا ہے اور ہوا بڑی مسرت سے درختوں میں جان ڈالتی رہتی ہے ۔
اگر بادل دیوانہ بن کر آیا ہے تو پھر کس لیے ہوا سونے کے پیالے میں شراب پیش کر رہی ہے؟
میرے خوف کے پھول کی خوشبو رنگ لائی ہے اس راز کو پاکر ہی ہوانے صبح کا پردہ چاک کر دیا ہے۔
گویا ہوا نے باغ کی دلہن کا گھونگھٹ ہٹا دیا ہے اور اس کا جلوہ دکھا دیا ہے ۔
اس میں تعجب کی کیا بات ہے کہ صبح کے وقت زیادہ اچھے خواب نظر آتے ہیں۔ ہوا بھی وقتِ سحر درختوں سے پھول توڑ کر زمین پر برساتی ہے ۔

غزل نمبر2
اس کے عشق نے دوبارہ مجھے قید میں ڈال دیا۔ (آزاد ہونے کی ) بہت زیادہ کوشش کا بھی کوئی فائدہ نہ ہوا۔
عشق ایسا سمندر ہے جس کا کوئی ساحل نہیں۔ اے شخص تو ، جو کہ دنیا داری سے آشنا ہے ، کیونکر اس میں تیر سکے گا؟
اگر تم چاہتے ہو کہ عشق تمہیں اپنی انتہا تک لے جائے تو ہر پسندیدہ شے کو نا پسند کرنے لگو۔
تم بد صورتی کو دیکھو اور سمجھو کہ یہ حسن ہے ۔ تم زہر کھاؤ اور سمجھو کہ تم نے شکر کھائی ہے ۔
میں (عشق کی ) باگ سرکش گھوڑے کی طرح کھینچتی رہی۔ میں نہیں جانتی تھی کہ کھینچنے سے پھندہ اور بھی تنگ ہوجاتا ہے ۔

غزل نمبر 3
کہتے ہیں کہ حضرت ایوب کے سر پرآسمان سے ٹِڈّیوں کی ایسی بارش ہوئی کہ ان کا تمام سر سنہری ہوگیا
اگر صبر کے باعث ان پر آسمان سے سنہری ٹڈیوں کی برسات ہوئی تھی
تو پھر یہ مناسب ہوگا کہ مجھ پر ایک سیسے کی ٹڈی برس جائے ۔
(یعنی میرے عشق کی شدّت صبر سے نا آشنا ہے )

غزل نمبر4
تیرے ہونٹ ’’شہد‘‘ ہیں اور رخسار چاند، تیرا چہرہ لالہ ہے اور زلف سیاہ ہے ۔
اللہ کے دین کو انہوں نے تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ آہ ان رخساروں سے مجھے خوف آتا ہے ۔
یہ بتیس دانے بیندھے ہوئے موتی ہیں(دانت) اور لالہ کے دوپھولوں تلے ایک پتہ ہے آہ! (یعنی زبان)
تیرے لالہ جیسے رخساروں نے میرا یا قوت جیسا رنگ سوکھی گھاس جیسا بنادیا ہے ۔
میرے اشک اولوں کی طرح صرف بدخواہوں کے طعنوں کے باعث برسے ہیں۔
کیونکہ میرا جرم کوشش(جہد، جہاد) کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ میری راہ اللہ کی راہ کے سوا کوئی دوسری نہ تھی۔
تاکہ وہ عشق سے میرا پورا وجود’’ ہو‘‘ بنادے۔ ( ہودرویشوں کانعرہ بھی ہے، اس کا مطلب ویرانے کا سناٹا ہے ۔ لیکن ہوکا ایک مطلب فارسی میں ’’وہ مرد‘‘ بھی ہے ۔ فرہنگ جامع۔ ڈاکٹر سید علی رضا نقوی)
یہی میرا جرم ’’العظیم ‘‘ تھا یہی گناہ تھا
۔(اس غزل میں رابعہ نے قرآنی الفاظ شہادت ، مقدر، ’’شہد‘‘ قوت ، جہدوغیرہ استعمال کیے ہیں جو الفاظ کے اندر پہاں ہیں)۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے