آج ہی جبرو ستم سے ہم نے پائی تھی نجات

آج ہی محنت کشوں نے پھر سے پائی تھی نجات

آج ہم اُن باغیوں کو پیش کرتے ہیں سلام

جن کا عزم مستقل ہے زیست کا تازہ پیام

 انسانی سماج کی تشکیل کے مرحلے میں جو مسئلہ رونما ہوا وہ طاقتور اور کمزور کے مابین طبقاتی توازن کا تھا۔ شروع شروع میں سماج نے سائنسی ترقی کے مراحل طے نہیں کیے تھے۔ جدید ایجادات نہ ہونے کے برابر تھیں۔ اس لیے توازن کا دار ومدار انسانی دعوت وطاقت کے بل بوتے پر تھا۔جو جسمانی طور پر طاقتور تھا یا جس کے پاس انسانی قوت زیادہ تھی وہ کمزور پر حاوی تھا یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق والا معاملہ تھا۔ اور یہی اصول ہر دور میں کسی نہ کسی طریقے سے حاوی رہا ہے۔ اس لیے سرمائے کی غیر منصفانہ تقسیم نے معاشرے میں دوطبقات کو جنم دیا ہے۔ ایک مراعات یافتہ طبقہ اور دوسرا محروم طبقہ، مراعات یافتہ طبقہ نے وسائل اور سرمائے پر غاصبانہ قبضہ کر کے دوسرے طبقے کو اس سے یکسر طور پر محروم رکھا جس سے طبقاتی نظام دنیا میں رائج ہوا۔ سرمایہ دار اور اُمر اء طبقہ نے ہمیشہ ہر وقت اور ہر جگہ ہر طریقے سے غریب طبقے کا استحصال کیا ہے۔ غریب کے بنیادی حقوق تک غصب کیے ہیں۔ امیر طبقہ محنت کے بغیر کچھ بھی نہ کرتے ہوئے اپنی منافقانہ چالاکیوں کے بل بوتے پر دنیا جہاں کی عیاشیاں کررہا ہے۔ بلکہ نسل در نسل دولت کے زور پر دنیا جہاں کی سہولیات سے بھر پور انداز میں مستفید ہو رہا ہے۔ مگر غریب طبقہ دن رات پوری زندگی نہ صرف خود بلکہ اہل وعیال کے ہمراہ سخت ترین محنت ومشقت کرتا ہے۔ خوارو زلیل ہوتا رہتا ہے مسلسل محنت ومشقت کی وجہ سے جسمانی طور پر نابودونا کارہ ہوجاتا ہے۔ مگر افسوس انہیں دو وقت کی روٹی وافر مقدار میں دستیاب نہیں ہوسکتا۔ جدید دنیا کی سہولیات سے آراستہ ہونا غریب طبقے کے لیے ایک ایسا خواب ہے جس کی کبھی بھی تعبیر نہیں ملتی۔

                دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کی جنگ امیر اور غریب کے مابین روز اول سے جاری وساری ہے۔ یقینا یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک طبقاتی نظام نیست و نابود نہیں ہوتا۔

                امریکہ کے مظلوم ومحکوم غریب محنت کشوں نے سامراجی طاقتوروں اور سرمایہ داروں کے ظلم و ستم اور استحصالی نظام کے خلاف اپنے بنیادی حقوق کی حصول کے لیے اور آٹھ گھنٹے کی دن مقرر کرنے کے لیے یکم مئی 1886میں احتجاج کا آغاز کیا۔ یہ صرف اپنے بنیادی حقوق کی حصول جمہوری اندا زمیں ایک جدوجہد تھا۔ ایک پُر امن احتجاج تھا۔یہ پُر امن ریلی مزدوروں نے کئی بڑے شہروں میں نکالے جس میں نیویارک، شکاگو، پٹسبرگ، بالٹی مور، سن سناٹی، کولمبس، مل وا کی، سیاٹل، سان فرانسسکو، بوسٹن، کلیو لینڈ، سینیٹ لوئس، واشنگٹن، فلیڈ یلفیا، جیسے شہروں سے ریلیاں نکالیں، تقریبا تین لاکھ مزدور سڑکوں پہ نکلے اور اپنا احتجاج ریکارڈ کرانا چاہا، مگر سرمایہ دار طبقے یعنی صنعتوں کے مالکان نے اپنی مکاریوں اور چالاکیوں کی بدولت اسے جنگ میں بدل دیا۔ اور اس جنگ میں نہتے مزدوروں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ سرمایہ دار طبقے نے ایک چال اور منصوبے کے تحت ریلیوں کی سیکورٹی انجام دینے والے پولیس اہلکاروں پر بمب پھینکوایا جس سے چند پولیس اہلکار ہلاک ہوئے اور پھر حکام بالا سے پولیس کو آرڈر دلوایا کہ ان پر گولی چلائی جائے۔ اس طرح ہزاروں پولیس اہلکاروں نے نہتے مزدوروں پر گولی چلائی جس سے مزدور ہلاک ہوئے۔مزدور زخمی ہوئے اور جوبچ گئے انہوں نے سفید جھنڈوں کو ہلاک ہونے والے مزدوروں کے خون سے سرخ کر کے احتجاج برقرار رکھا اس لیے آج تک مزدوروں کے جھنڈے کارنگ پوری دنیا میں سرخ ہے۔ بچے ہوئے مزدور رہنماؤں کو ریاست نے گرفتار کر لیا اور جیلیں بھر دیں۔ پھر انہیں پھانسیاں دے دی گئیں۔ مگر مزدوروں نے اپنی جدوجہد پھر بھی جاری رکھی اور مسلسل پُر امن احتجاج کرتے رہے۔ بالآخر سات سال کی جدوجہد کی بدولت 26جون،1893کو امریکہ کے گورنر جان پیٹرسن نے سارے مزدوروں کی جیل سے رہائی کا حکم جاری کیا۔ اور یکم مئی کا دن مزدوروں کے مطالبے پر منانے کا اعلان کیا۔ اس دن سے لے کر آج تک پوری دنیا میں مزدور، یومِ مئی مناتے ہیں۔

 دراصل یومِ مئی کی جدوجہد کا آغاز اس واقع سے تقریب آدھا صدی قبل 1867میں اس وقت ہوا تھا جب فلیڈ یلفیا میں ایک درجن سے زائد مزدور تنظیموں نے متفقہ طور پر ایک ٹریڈ ایسوسی ایشن کا بنیاد رکھا اور پھر اس ایسوسی ایشن کے پلیٹ فارم سے مزدوروں نے کام کے اٹھارہ گھنٹے کے اوقات کو کم کر کے دس گھنٹے مقرر کر نے کا مطالبہ کیا اس ایسوسی ایشن کے جدوجہد کو دیکھتے ہوئے 1834میں نیویارک کے بیکریز کے مزدوروں نے بھی اوقات کی کمی کا مطالبہ کردیا۔ اور اس کے لیے جدوجہد تیز کردیا  اس جدوجہد کے مثبت نتائج رونما ہونے لگے تو 1861 میں بوائلر کے مزدوروں نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ پھر 1864میں کانکنوں نے، اور جہازوں میں کام کرنے والے مزدوروں نے اتحاد کا مظاہرہ کیا۔ اسی روش پر چلتے ہوئے 1866میں بھٹہ کے مزدوروں نے متحد ہو کر مظاہرہ کیا۔ پھر اسی سال ان تمام مزدور تنظیموں کے رہنماؤں نے بالٹی مور میں اتحاد و اتفاق کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے دُنیا کی پہلی مشترکہ فیڈریشن کی بنیاد رکھی۔ اور اس فیڈریشن کا نام نیشنل یونین لیبر تجویز کیا۔ پھر کچھ عرصے کے بعد ریلوے کے مزدوروں نے آواز بلند کی اور 1873میں منظم ہو کر اپنی تنظیم کے پلیٹ فارم سے جدوجہد کا آغاز کیا۔ دراصل مزدوروں کے ان تمام تنظیموں کا اہم مقصد یہ تھا کہ اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے سرمایہ دار طبقے سے اپنے بنیادی حقوق حاصل کیے جائیں اور اوقات کا ر اٹھارہ گھنٹے سے کم کر کے آٹھ گھنٹے مقرر کیے جائیں، تاکہ مزدور آٹھ گھنٹے کے بعد آٹھ گھنٹہ آرام کرسکیں، جو صحت کے لیے نہایت ہی ضروری ہے۔ اور پھر آٹھ گھنٹے اپنے نجی معاملات کو دیں، تاکہ سماجی معاشرتی اور گھریلو ضروریات بھی احسن طریقے سے سرانجام دیے جاسکیں۔ سرمایہ دار طبقے سے جنگ جیت لیا اور عالمی سطح پر ایک تاریخ رقم کردی۔ اسی تاریخ کو عملی جامع پہنانے کے لیے  ہم ہر سال یکم مئی کو اکٹھا ہوتے ہیں۔ یوم ِ مئی کو منانے کا اصل مقصد یہ ہے کہ مزدوروں کی جدوجہد کو عالمی سطح تک متحد کر کے اور یک آواز ہوکر اسے عملی جامع پہنایا جائے۔

 دراصل اس منحوس سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے دنیا کی اکثریت آبادی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ انہیں کوئی بنیادی سہولیات دستیاب نہیں صحت، تعلیم، صاف پانی اور روزگار غریب مخلوق کے لیے خواب کی مانند ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے لدل میں دھنسا جارہا ہے اور نکلنے کا کائی راستہ نہیں۔ سرمایہ دار ایسا مکارانا چال چل رہا ہے کہ اس کا سرمایہ دن بدن بڑھتا جارہا ہے اور اس کے نظام کے پاؤں مضبوط ہوتے جارہے ہیں اس کے علاوہ سرمایہ دارانہ نظام نے دنیا کے طاقتور سامراجی حکمرانوں کے ساتھ مل کر اپنے اس نظام کی تحفظ کے لیے عالمی مالیاتی اداروں کو اتنا طاقتور بنادیا ہے کہ وہ ہر کمزور ملک پر اپنی گرفت مضبوط کیے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے سود خوری نظام کے تحت محکوم و مظلوم قوموں کی اس طرح استحصال کر رہے ہیں کہ انہیں معاشی طور مجبور کر کے اپنا غلام بنایا ہوا ہے۔ اس استحصال طبقے نے دولت کے حوس میں دنیا کو جہنم بنادیا ہے۔ وہ کئی طریقوں سے ہماری استحصال، معاشی استحصال، ذہنی و اخلاقی استحصال، ثقافتی وسماجی استحصال، سیاسی و قانونی استحصال، غرض کہ زندگی کے ہر موڑ پر استحصال ہماری استقبال کے لیے سینہ تان کے کھڑی ہے سرمایہ دار طبقہ ہتھیار استحصال کو غریب طبقے کے لیے بے دریخ استعمال کر رہا ہے۔ مگر قانون فطرت کا بغور جائزہ لیا جائے تو تمام اولاد آدم کا ماں کے بطن سے عریاں پیدا ہونا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ انسان سب برابر ہیں لیکن دنیا کے ایک قلیل طبقے نے فطرت کے اس اصول کو پس وپیش ڈال کر فطرت کو بھی چیلنج کیا ہوا ہے۔

مگر دوسرا طبقہ جو عرب ہا انسانوں پرمشتمل ہے وہ محنت ومشقت پر مکمل یقین رکھتا ہے۔ اپنے ہاتھوں دماغ اور ہنر کے بل بوتے پر اس دنیا کو گلشن و گل وگلزار بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ اور دن رات محنت مشقت کر کے اپنے پیٹ کا دوزخ کو بھرتا ہے۔ اور دوسرا طبقہ بغیر محنت سے محض اپنی مکاریوں اور چالاکیوں کے بل بوتے پر تمام سرمایہ کو اپنے قبضے میں کیا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے دنیا جہاں کی عیاشیاں کرتا پھرتا ہے۔ استحصال کی بنیاد دراصل دھوکہ مکاری اور جھوٹ پر ہے۔ جبکہ محنت کی بنیاد تو کل بھروسہ اور سچ پر ہے اس لیے سچ اور جھوٹ آپس میں دو متضاد چیزیں ہیں ان کا آپس میں میلاپ ممکن نہیں۔ اسی طرح سرمایہ دار طبقہ اور محنت کش طبقہ کا آپس میں سمجھوتا کسی طور ممکن نہیں۔ یہ جنگ ماقبل تاریخ سے جاری ہے اور تب تک جاری رہے گا جب تک سرمایہ دار طبقے کی بیخ کنی ممکن نہ ہوسکے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے