کتاب کا نام  :  امریکہ کے نسلی امتیازات

مصنف  :  جارج جیکسن

ترجمہ  :  شاہ محمد مری

تبصرہ    :  ارشد خانم

   صنف ادب میں مکتوب نگاری کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔اردو ادب میں اس کی ابتداانیسویں صدی میں ہوئی۔دوسری اصناف سخن کی طرح خط نگاری میں بھی ہمیں فارسی کے اثرات غالب نظرآتے ہیں۔آج موبائل اور میسج کی جدید دنیا بھی خط نگاری کی اہمیت کو کم نہ کر سکی۔سرکاری ر قعات کے علاوہ  خط وہ ذاتی تحریر ہوتے ہیں، جن میں دانش بھی ہوتی  ہے اور بینش بھی۔۔۔یہ اپنے زمانے کی بہترین دستاویز بھی ہوتے ہیں اور کسی کی نجی زندگی کی سوانح عمری بھی۔

                اسی طرح ترجمہ نگاری بھی ایک ایسا فن ہے،جس نے تمام دنیا کی ثقافتوں کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے۔اگر چہ ترجمہ نگاری کی ابتدا بھی بہت پہلے ہوچکی تھی لیکن جدید ٹیکنالوجی نے اس میں جو کمال دکھایا اس نے سچ مچ دنیا کو گلوبل ویلیج بنا کے رکھ دیا ہے۔یہ سائنس ہی کی کرشمہ سازی ہے کہ ہم گھر بیٹھے دوسری قوموں کے رہن سہن، ثقافت اور معاشرت سے بخوبی آگاہ ہو جاتے ہیں۔

                میرے مد نظر اس وقت شاہ محمدمری کی ترجمہ شدہ انگریزی کی ایک تصنیف    ”سالیڈیڈبرادران“  ہے۔یہ جارج جیکسن کے وہ خطوط ہیں جو اس نے دوران قید اپنے وا لدین اور عزیز واقارب کو لکھے تھے۔یہ خطوط نہ صرف انسانی حقوق کی علمبردار امریکی قو م کی روشن خیالی کا پردہ چاک کرتے نظرآتے ہیں بلکہ ہمیں ان سے نسلی امتیازات کی آڑ میں انسانیت کا استیصال کرنے والی گوری قوم کا وہ بھیانک چہرہ بھی نظر آتا ہے جس پر اپنی معاشی برتری کی بناء پر امریکہ نے پردہ ڈال رکھا ہے۔ ۸۴ خطوط پر مشتمل اس کتاب کو شاہ محمد مری نے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ ۰۶۱ صفحات کی اس کتاب کے بارے میں وہ لکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔”انسانی تاریخ طبقاتی لڑائی کی تاریخ ہے۔مگر اس لڑائی کی صورت ہمیشہ طبقاتی نہیں رہی۔اس نے کبھی عقیدے کا چوغہ پہنا،کبھی نسل اور زبان کا لبادہ اوڑھا۔۔۔اور کبھی کسی اور بہانے کو نمایاں پیش کیا۔مگر جلد کی رنگت کے نا م پر جتنا کشت وخون  اس زمین پر ہواوہ کسی اور بہانے سے نہیں ہوا۔گورے کی کالے پہ برتری کا بیہودہ تصور صدیوں پرانا ہے۔گو کہ مسیحیت کے مذہب نے اس میں اولین  رکاوٹ ڈالدی مگر بعد میں اسے ہی اس کو  مہمیز دینے کا و سیلہ بنا دیا گیا۔خودہمارا تصوراتی نجات دہندہ یعنی سائنس،ٹکنالوجی نے تو سیاہ فام نسل کی تذلیل و تحقیروقتل وغلامی میں وہ بھیانک  کام کر دکھایا کہ الحفیظ والامان۔۔۔۔زیر نظر کتاب ایک ایسے ہی سیاہ فام کی بر بادی کی داستان ہے،جو اس کے لکھے گئے خطوط سے کھل کر سامنے آتی ہے۔“

        جارج جیکسن بد قسمتی سے ریاست ہائے متحد ہ امریکہ کی سیاہ فام نسل سے تعلق رکھتا تھا۔۰۶۹۱ میں اس اٹھارہ سالہ لڑکے کو ایک گیس سٹیشن سے ستر ڈالر کی چوری کے الزام میں گرفتا ر کر لیا گیا تھا۔جارج اگر چہ بے گناہ تھالیکن اسے سیاہ فام ہونے کے جرم کی پاداش میں دس برس سو لیڈید جیل میں گزارنا پڑے تھے،جس میں ساڑھے سات سال قید تنہائی کے تھے۔قید کے دوران ہی اسے اپنے سترہ سالہ بھائی جو ناتھن  کی موت کی خبر ملتی ہے۔یہ ا ندوہناک  خبر جارج کے اندر نفرت کی آگ مزید بھڑکا دیتی ہے اور نفرت کا یہ لاوا تلخ ترین لفظوں کا روپ دھار کے ہمیشہ کے لئے صفحہ قرطاس پہ بکھر جا تا ہے۔۴۶۹۱ سے ۰۷۹۱ تک اپنے والدین اور عزیزوں کے نام لکھے گئے جارج کے یہ خطوط نہ صرف اس کی دلی کیفیات کے غماز ہیں بلکہ احترامِ انسانیت کا دم بھرنے والے مہذب امریکا کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے۔جارج کوقدرت نے ان حا لا ت  میں اپنی تعلیم جاری رکھنے کا حوصلہ بخشا۔وہ بہتر متقبل کی امید مں اپنا وقت گزار رہا تھاکہ اس دوران اس پر اور اس کے ساتھیوں پر ایک سفید فام کے قتل کا جھوٹا الزام لگا دیا جاتا ہے۔وہ اپنے خطوط میں ان تمام واقعات کی تفصیل جس انداز میں بیان کرتا ہے اس نے جارج کو رہتی دنیا تک امر کردیا ہے۔جارج کو دنیا کے سامنے انقلابی بنا کے پیش کیا گیا لیکن عدالت میں اس کا مقدمہ شروع ہونے سے پہلے اسے گولی مار دی جاتی ہے۔اس تمام صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے جیمزبالڈون نے لکھاتھا۔۔۔ ”کوئی سیافام کبھی یقین نہ کرے گاکہ جارج جیکسن اس طرح سے مرا،جس طرح یہ لوگ بتا رہے ہیں“۔

       جارج کو اپنی ماں سے والہانہ محبت تھی جبکہ اپنے با پ کو بھی گاہے بگاہے اپنے حالات سے آگاہ کرتا رہتا تھا۔اس نے دسمبر ۴۶۹۱ کے ایک خط میں اپنے والد کو لکھا تھاکہ میں چار ضرب نو کے کمرے میں محبوس ہوں ِ،مہینے میں صرف دو بار باہرگیا ہوں۔ہر با ر صرف دس منٹ  کے لئے نکلا ہوں ، جس میں مجھے نہانے کی اجازت دی گئی تھی۔وہ لکھتا ہے ان یورپی لو گوں نے میری ساری زندگی کو ایک مردہ فارمولے میں بند کر دیا ہے،میرے سارے فطری جذبات ختم ہو کے رہ گئے ہیں۔

                 ۰۶۹۱ میں جب جارج کو گرفتا ر کیا گیا تو پولیس نے حسب روایت اس کی جیب سے۵۲ ڈالر بھی نکا ل لئے تھے  اور ستر ڈالر کی چوری اس کے کھاتے میں ڈال کر اسے گرفتار کر لیا تھا۔وہ اپنی حقیر سازشوں میں چھوٹے لوگ تھے،بقول ماؤزے تنگ۔۔۔۔۔ ”اوتھلے آدمیوں میں چھوٹی سوچوں کی مچھلیاں زیادہ شورش پیدا کرتی ہیں، عظیم الشان سمندری دماغوں میں روحانی فیضان کی مچھلیاں بمشکل ایک ژولیدگی پیدا کرتی ہیں“َ۔   جارج جیکسن پہ ہی کیا موقوف تمام سیاہ فام زندگی سے نالاں تھے۔ سفید فام نسل کے امریکیوں نے ان سے زندگی کی خوشیاں چھین لی تھیں َ۔ان حالات نے بجائے مایوسی کے جارج کو جینے کا حوصلہ عطا کیاتھا۔وہ کہتا ہے کہ میں اشکوں سے بھرے اس دیس میں لاکھوں سیاہ فاموں کی پرواہ نہیں کرتاکہ  ان کا مقدران کے اپنے انتخاب میں ہے لیکن اس کے باوجودمیں کبھی اپنی نسل سے غداری نہیں کرسکتا کہ اپنے آپ سے، اپنی نسل سے محبت فطرت کا پہلا قانون ہے۔جارج کو شدت سے اس بات کا احساس تھاکہ یہ دنیا مردوں کی بالا دستی کی دنیا ہے جبکہ متشددانہ سلوک کا شکار بھی ہمیشہ مرد ہی ہوتا ہے،کیونکہ  اس کے پاس وہ ہمدردانہ دماغ نہیں جو پیدائشی طور پر عورت کو ودیعت کیا گیا ہے۔قدرت نے جان بوجھ کر عورت کی زندگی کو سادہ بنایا ہے،  تاکہ وہ مردوں کی تابعداری اور وفا شعاری کرتی رہیں۔مہذب معاشروں میں عورت پر اتنا بوجھ نہیں لادا جاتا،وہ بس بچے پیدا کرتی اور انسان کے وجود کی مقصد برآری کرتی ہے۔نسلوں کودوام بخشنااور ان کی تربیت کرنا وہ عظیم کام ہے جو عورت انجام دیتی ہے جبکہ سفید فام یہ سمجھتے ہیں کہ زندگی غصے اور سکون سے بھری  ہوئی ایک بے وقوف کی سنائی ہوئی داستان ہے جس کی کوئی اہمیت نہیں۔جذبات کے اس جوار بھاٹے میں اسے اپنی ماں یاد آجاتی ہے۔وہ شدت جذبات سے پکار اٹھتا ہے،ماں۔۔۔۔میں تم سے محبت کرتا ہوں اور یہ محبت اس وقت تک بڑھتی رہے گی،جب تک میرا وجود ختم نہیں ہو جاتا۔

          حالات کی تلخی نے جارج کو وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا تھا۔یہ تلخی اسے مایوس نہیں کرتی بلکہ جینے کی امنگ پیدا کرتی ہے،وہ کہتا ہے کہ مجھے امید ہے،میں ٓاخری راؤنڈجیت لوں گا۔وقت اور حالات نے اسے یہ بات سمجھا دی تھی کہ کسی شخص کے کردار کو جانچنے کا بہترین ذریعہ  پیسہ ہے۔ پیسہ پاگل سماج  کے صدمے اور دباؤ سے پاک  دماغوں کو بر باد کرنے کے لئے کا فی ہے۔وہ کہتا ہے کہ غربت اور افلاس  نے میری زندگی کی نا کامی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔مجھے بھوک،پیاس  ِگالیوں  اور دیگر بے شمار تو ہینوں کا شکار بنا یا گیا۔یہی وجہ ہے کہ مجھے ان لو گوں سے اب ذرا بھی خطرہ محسوس نہیں ہوتا۔تکلیف دہ امر تو یہ ہے کہ میں نے جس معاشرے میں جنم لیا،پلا،بڑھا،اسی معاشرے نے مجھے نفرت اور انتقام کا نشانہ بنا یا۔اسے شدت سے اس بات کا احساس تھا کہ میری نسل کے لوگ ذہنی اور جسمانی آلام سے نجا ت پانے کے لئے شراب اور دیگر منشیات کے عادی ہو جاتے ہیں اور پھر باورچی، چو کیداراور بیرے جیسی معمولی ملازمتیں کر کے زندگی کے دن گزار دیتے ہیں یا پھر مزاحمت اور تفاوت کی راہ اختیار کر لیتے ہیں۔ لیکن جارج اپنی معصوم فطرت کی بنا پر ان برائیوں سے دوررہا۔وہ لکھتا ہے کہ ”میں فطرتاََ شریف آدمی ہوں۔زندگی کی سادہ ترین چیزیں یعنی اچھی خوراک،اچھی شراب،اچھی کتاب،موسیقی اور سیاہ فام عورت سے محبت کرتا ہوں۔لیکن اس طبقاتی سماج کے ہچکولوں نے میرے اندر ایک ایسا شعلہ بھڑکا دیا ہے،جو اس وقت تک زندہ رہے گا جب تک مجھے یا میرے حریف کو تباہ نہ کردے۔“جارج  مزید لکھتا ہے کہ کتابوں سے حاصل شدہ مواد کے علاوہ میں اپنے کردار کی تشکیل کے لئے اپنے جذبات پر مکمل کنٹرول رکھتا ہوں۔اسی چیز نے اس کی سوچ کا دھارا بدل دیا تھا۔اسے شدت سے اس بات کااحساس تھا کہ اس کا مستقبل دنیا کی سیاہ فام قوم سے وابستہ ہے۔ اسی لئے اپنی عادات کو ان کے طرززندگی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے۔اسے گمان ہے کہ جب اس کاوجود معدوم ہو جائے گا تو کوئی یقین نہیں کرے گاکہ وہ ریاستہائے متحدہ امریکہ میں سب سے نچلے طبقے میں پیدا ہوا تھا۔اپنے مستقبل کے بارے میں پر امیدنہ ہونے کی وجہ سے اپنے والدین کو ایک خط میں لکھتا ہے کہ میراکیس ڈسٹرکٹ  اٹارنی کو بھیج دیا گیا ہے،وہاں سے پھر گرینڈجیوری کو بھیج دیا جائے گا۔اس طرح  یہ میری نسل کے لو گوں کو بتا نا چا ہتے ہیں کہ ہم ان کے ہاتھوں میں کتنا بے بس ہیں۔ ِمیں اپنی تبا ہی کو مکمل لا پرواہی سے دیکھ رہا ہوں،زندگی کی قیمت موت ہوتی ہے اور میں ان محدود برسوں  میں زندگی کی کتاب پر بہت کچھ لکھ چکا ہوں جو سیاہ فام کا لج یا یونیورسٹی سے فارغ ہوتا ہے،وہ اسی طرح جاہل یا ان پڑھ ہوتا ہے،جس طرح ایک سفید فام مزدور۔۔۔۔اس طرح ہمارے حکمران ہماری زندگیوں میں خالی پن بھر دیتے ہیں،وہ ہمیں ہماری محنت کا تھوڑا سا پھل بھی کھانے نہیں دیتے۔ہمیں چاہیے کہ اس خالی پن کو بغاوت کے ذریعے پر کردیں۔ مجھے تو ویسے بھی موت نظرآرہی ہے،میرا اندازہ ہے کہ موت کا فرشتہ اپنے پنجے میری طرف بڑھا رہا ہے۔مجھے پتہ ہے کہ سیاہ فام کبھی بھی آزاد نہیں رہے۔ البتہ اعلانِ نجات ہونے سے غلامی کی شکلیں بدل گئی ہیں اور زنجیروں والی غلامی نے معاشرتی غلامی کی شکل اختیار کر لی ہے۔ان حالات کی وجہ سے امریکہ میں سارے جرائم ستر سے اسی فیصد تک سیاہ فام ہی کرتے ہیں۔وجہ ظاہر ہے غربت ہے۔ہماری آبادی کا ۸۹ فیصد حصہ تلخ اور وحشت ناک  حالات میں زندگی گزارتا ہے اور اس ناقابل اصلاح نظام کی مصیبت جھیل رہا ہے۔ہم ہمیشہ ظلم و ستم کو صبر اور برداشت سے سہتے رہے ہیں لیکن یہ سلسلہ اب مزید جاری نہیں رہ سکتا،فطرت اس طرح کی تفریق کو دیر تک قائم نہیں رہنے دیتی۔میں اپنے مستقبل کی نسلوں کے کاندھوں سے یہ عذاب ہٹانے کے لئے کمر بستہ ہوں۔

                جارج کو شدت سے اس بات کااحساس تھا کہ امریکی سامراج نے میری طبعی آزادی چھین لی ہے اور میں خوشیوں سے دور ہو گیا ہوں۔مصیبتوں،مشکلوں  اور غموں نے میری زندگی کے ۴۲ سالوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔مجھے آج تک دماغی سکون کا ایک لمحہ بھی میسر نہیں آیا۔ہاں آنے والے کل کی امید میں زندہ ہوں۔جارج لکھتا ہے کہ امریکہ کی سات فیصد اشرافیہ،جو اس ملک کی سیاہ و سفید کی ما لک ہے،وہی باقی یورپی دنیا کو متاثر کرتی ہے۔چین کی طاقت انہیں گوارا نہیں،لیکن یہ چین پر حملہ بھی نہیں کرسکتے کیو نکہ  امریکہ کے سیاہ فام اس کی مذمت کرتے ہیں لیکن اس کے برعکس میری دلی کیفیت یہ ہے کہ رہوڈیشیا یا جنوبی افریکہ کے سیاہ فام لو گوں کے ساتھ اگر کوئی واقعہ پیش آجائے تو مجھ پر غصہ طاری ہو جا تا ہے کیونکہ سیاہ فام ہو نا ہماری بد نصیبی کی علامت ہے۔ اگر ہم سیاہ فام نہ ہوتے تو یقیناََسا ئنس کی نعمتوں سے بہرہ مند ہوسکتے تھے۔

                اس پس منظر نے بلاشبہ جارج کو قنوطیت پسند بنا دیا تھاایسے میں پھر اسے اپنی ماں یادآجاتی ہے وہ بے ساختہ پکار اٹھتا ہے ماں۔۔۔ میں دیر تک زندہ رہنا چا ہتا ہوں تاکہ تیری دیکھ بھال کر سکوں۔جارج کو شدت سے اس بات کااحساس ہے کہ ساری زندگی میں نے محنت میں گزاردی،مجھے کسی طرف سے کبھی کوئی مدد نہیں ملی۔میں شروع ہی سے تنہائی کے کرب میں مبتلا ہوں میرے باپ نے مجھے کچھ نہ دیا۔میری ماں نے مجھے دیوتا اور وحشتناک چرچ دیا، ایسا دیوتا،جو میری زندگی کی خوشیاں لے گیا،میرے پاس اپنے سوا کچھ بھی تو نہیں ہے۔۔۔۔دسمبر میں مجھے بورڈ کے سامنے پیش کیا جائے گاامید تو ہے کہ میں ان کی شرائط پر پورا اترونگا۔ایسے میں میری رہائی تقریباََیقینی ہے۔۔۔۔۔۔لیکن افسوس ایسا نہ ہوسکاجارج آٹھ ماہ بعدستمبر میں دوبارہ رہائی کا خواب دیکھنے پر مجبور ہو گیا۔اس دوران وہ چینی اور عربی زبان سیکھنے اور الیکٹٹرونکس اور کیمیکلز کی تعلیم کے حصول کی منصوبہ بندی شروع کر دیتا ہے تاکہ رہائی کے بعدعملی زندگی میں حصہ لے سکے لیکن افسوس بار بار رہائی کے اس خواب کی بھیانک تعبیر موت کی صورت میں سامنے آتی ہے۔لیکن موت سے پہلے آخری ایام میں اسے پھر اپنی ماں کی یاد ستا تی ہے۔وہ اپنی ماں کے نا م ایک خط  میں لکھتا ہے کہ میں نے کسی انسان کے ساتھ خود کو اتنا قریب نہیں پایا،جتنا کے آپ کے ساتھ پاتا ہوں،آپ کی سوچیں ہوبہو میری سوچوں کی عکاسی کرتی ہیں۔ پھر باپ کے بارے میں سوچتا ہے کہ جب آپ میری عمر کے تھے تو کہاں تھے اور کیا کرتے تھے؟۔میں شرط لگا سکتاہوں کہ آپ مجھ سے زیادہ بہتر نہ ہوں گے،جتنا کہ اب میں ہوں۔در حقیقت جیل کی طویل زندگی نے جارج کو قبل از وقت بہت سے حقائق کا ادراک عطا کردیا تھا اسے احساس ہو گیا تھا کہ جیل کی پالیسیوں کا اصل شکار ان پڑھ،غیر منظم اور منتشر لوگ ہوتے ہیں۔ان کے کرپشن کی تمام تر ذمہ داری حکو متی پا لیسیوں پر عائد ہوتی ہے کیو نکہ ان کی پا لیسیاں ذہن کے استدلالی پراسس کو تباہ کر دیتی ہیں۔ ہر طرف سے پاگل پن کی چیخیں ،ہیجان انگیزآوازیں،دیواروں میں لگی آہنی چارپائیاں،لوہے کی تھا لیاں اور بد بوئیں جیل کے باسیوں کا مقدر ہوتی ہیں اور انسانی فضلہ،ان دھلے جسم ا ورسڑی ہو ئی خوراک ان کا نصیب۔۔۔۔۔سالڈ جیل کی فضا بھی اس تشدد اور خوف سے بھری ہوئی تھی۔یہاں ۰۴۱ افراد کو دیکھنے کے لئے ایک ٹی وی میسر تھا۔ایک کونے میں سیاہ فا م اور ایک کونے میں سفید فام براجمان ہوتے تھے۔اگر چہ ویتنام کے سپاہیوں نے حملہ کر کے ان کو تباہ کردیا تھا لیکن پھر بھی سیاہ فا م کی تعداد ہمیشہ زیادہ ہوتی تھی۔ظاہر ہے اس طرح مسائل تو معاشی طور پر حل نہیں ہوتے لیکن امریکی فاشسٹوں نے اس طرح دنیا کو خام مال کا منبع اور منڈی بنا لیا تھا۔سیاہ فام لوگوں کے جسم ان کے لئے سستا خام مال تھے،جس سے یہ لوگ کم سے کم وقت میں زیادہ زیادہ فائدہ اٹھانا چا ہتے تھے۔فاشسٹ دراصل وہ بیماری ہے،جو شر کی پشت پناہی کرتی اورخیر کو ملیامیٹ کوکر دیتی ہے۔جارج کا استدلال یہ ہے کہ ہم سیاہ فا م لوگ نہ تو فاشسٹ ہیں اور نہ ہی امریکی، بلکہ معاشی لحاظ سے استیصال شدہ نوآبادیاتی لوگ ہیں،جنہیں افریکہ سے تشدد کرکے یہاں لایا گیا ہے۔آج ہماری نوآبادیاتی دنیا امریکہ میں موجودکا لوں کی طرف دیکھ رہی ہے کہ ہماری امداد کے بغیر اس بلا (گوروں)سے نجات نا ممکن ہے۔

                جارج مرنے سے پہلے اس دنیا کو نسل پرستی، غربت،احساس برتری اور سودی معیشت سے آزاد دیکھنا چاہتا ہے۔اسے اپنے بچپن کا وہ معصوم دور یادآتا ہے جب وہ اپنے داداجارج ڈیوس کی گود میں ہو تا تھا۔دادا اس کو بے تحاشہ پیار کرتا تھالیکن سنِ شعور کو پہنچنے کے بعد حالات یکسر مختلف ہو گئے۔پھر حالات نے اسے وہ دورا بتلا دکھایاجب وہ اپنی ماں اور بہنوں کے ساتھ گلیوں کی خاک چھاننے پر مجبور ہو گیا۔آئے دن کوئی نہ کوئی الزام دھر کے اسے گرفتار کر لیا جاتاایسے میں بلاوجہ ماں سے بھی صلواتیں سننا پڑتیں۔آخر کار ستر ڈالر کی چوری کا الزام لگا کے اسے جیل میں ڈال دیا گیا،جہاں موت کا بھیانک اژدھا منہ پھاڑے اس کی طرف بڑھ رہا تھااور پھر رہائی سے صرف چار دن پہلے اسے گولی ماردی جاتی ہے۔۔۔۔قید کے آخری ایام میں وہ اپنی وکیل کوخط میں لکھتا ہے کہ میں اپنی زندگی کے بد ترین ایام کبھی بھلا نہیں سکوں گا۔یہ تو با لکل ایسے ہی ہے،جیسے زندگی کے چند حسین لمحات ایک ڈراؤنے خواب کی تاریکی میں کچھ دیر ٹمٹمانے کے بعد کھو جاتے ہیں۔ میرے باپ نے بھی ایک پریشان کن زندگی گزاری ہے۔وہ یہ نہ سمجھ سکا کہ اس کے کردار کی تشکیل کے پیچھے کونسی معاشی مجبوریاں ہیں؟۔اب میرا باپ زندگی کے جس حصے میں داخل ہو گیا ہے وہاں وہ درد محسوس کرنے کی صلاحیت سے بھی عاری ہو چکا ہے۔ جب میں اسکی آنکھوں میں آنکھیں  ڈال کر دیکھتا ہوں توجذبات سے با لکل عاری آنکھیں نظرآتی ہیں۔وجہ صاف ظاہر ہے کہ کالوں کے نوآبادیاتی علاقے خانہ جنگی کے زمانے سے معاشی بدحالی کا شکارہیں، غلامی کا دور ختم ہوا تو ایک نئی غلامی کے دور کا آغاز ہو گیا۔جاگیرداری نظام کی جگہ سرمایہ داری اور آمر یت کا دور شروع ہو گیا۔سرمایہ دارانہ کاروباری چکر کے چار درجے ہیں،اصلاح،وسعت، مہنگائی اور بدحالی۔۔۔۔اصلاح اور وسعت سے ہٹ کرکالوں کے حصے میں ہمیشہ معاشی بدحالی آئی ہے،کیو نکہ سرمایہ دارانہ  نظام کا مفروضہ یہی ہے کہ دنیا پر ہمارا کوئی حق نہیں۔جارج کہتا ہے کہ اس خیال نے میری اور میرے ہم عصروں کی زندگی حرام کر رکھی ہے۔میں یہ لا علاج کینسر ساتھ لے کر پیدا ہوا تھا۔یہ وہ پیپ بھری مہلک چوٹ ہے،جس نے میرا چین و سکون تباہ کر دیا ہے۔میں اب اپنی نسل کے لوگوں کو مزید غلام بنتے نہیں دیکھ سکتا۔میں نئی نسل کے لوگوں کو یہ لعنت ورثے میں نہیں دینا چاہتا۔اس موقع پر جارج انتہائی جذباتی ہو کر کہتا ہے،میری کالی ماں ۱ اب تم مزید بزدل پیدا کرنا چھوڑدو۔اگر تم اپنے بچوں کی خودداری کو ان کی زندگی کے عوض دے ڈالتی ہو تویہ تمہاری زیادتی ہے۔جارج کے یہ آْخری جملے اس کے اندرونی کرب کی وضاحت کرنے کو کافی ہیں۔

         شاہ محمد مری نے  ”سالیڈیڈبرادران“کو ۷۱۹۱ میں انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ میں نے بلوچی کی بجائے اس کو اردو میں اس لئے تر جمہ کیاکہ اس کو ہرشخص بآسانی پڑھ  اور سمجھ سکے۔جیسے مجھے اسے پڑھ کر اردو میں ترجمہ کرنے کی تحریک پیدا ہوئی اسی طرح دوسرے لوگ بھی اسے اپنی اپنی زبان میں ترجمہ کرلیں۔سچی بات تو یہ ہے کہ یہیں سے مجھ میں اس پر لکھنے کی تحریک پیدا ہوئی کہ آج ہم پسماندہ ملکوں کے باسی ہی اس قسم کے مسائل سے نبردآزما نہیں ہورہے بلکہ انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردارانسانیت کے لئے سم قاتل بنے ہوئے ہیں۔ سچ ہی تو ہے کہ۔۔۔۔۔

       ”جلد کی رنگت کے نام پر جتنا کشت وخون اس زمین پر ہوا،وہ کسی اور بہانے پر نہیں ہوا۔گورے کی کالے پر برتری کا یہ بیہودہ تصورصدیوں پرانا ہے۔گو کہ مسیحیت کے مذہب نے اس میں اولین رکاوٹ ڈالدی مگر بعد میں اسے ہی اس کو  مہمیز دینے کا وسیلہ بنا دیا گیا“۔    (شاہ محمد مری) ۔

       یکم دسمبر ۵۵۹۱ میں شہری حقوق سے محروم امریکیوں کے لئے ایک روشن صبح تھی۔امریکی شہر مانٹگمری کی ایک سیاہ فام خاتون روزاپارکس کام پر جانے کے لئے بس پر سوار ہوئی اور بیٹھتے

       ایک کتاب کھول لی،اتنے میں کنڈیکٹر کی کرخت آواز گونجی،گورے صاحب کے لئے سیٹ خالی کیجیے۔روزا نے سنی ان سنی کردی۔جس پر کنڈکٹرنے کندھا جھنجھوڑکر کہا،سنا نہیں تم نے؟

        خاتون پوری آواز سے دھاڑی،جہنم میں گئے تم اور تمہارا گورا صاحب، میں اٹھنے والی نہیں۔ کیا یہ منحوس مفلوج ہے کہ کھڑا نہیں ہو سکتا۔قانون گردش میں  ٓایا اور روزا گرفتار ہو گئی۔اس کے بعد مارٹن لوتھر کنگ کی قیادت میں ایک تحریک چلی،جس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔اس طرح سیاہ فام قوم نے اپنے حقوق حاصل کر لئے۔سچ ہے قربانی کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔۔۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے