زیست کیا ہے اک تماشائے عجیب

موت کیا ہے اختتام لطفِ زیست

اب سکوں کی وادیوں میں جارہیں

ہاں یہاں سے دور اس دنیا سے دُور

نیم تاریکی جہاں پر ہے محیط

اُس جگہ اُس خطہِ برباد میں

ایک گوشے میں کہیں آرام سے

نظم دنیا کے لیے سوچیں ذرا

ہم اگر چاہیں تو دنیا کا نظام

پھر بدل سکتے ہیں اک تدبیر سے

”انقلاب“ اور ہمت مرداں بغیر

ہو نہیں سکتا مگر کچھ اس طرح

ہم ترقی کر نہیں سکتے اگر

زندگی کی فکر میں الجھے رہے

آؤاب پہلے بدل دیں زیست کو

پھر بدل ڈالیں گے یہ نظم جہاں

مجھ کو یہ نظمِ جہاں بھاتا نہیں

مجھ کو اس دنیا میں چین آتا نہیں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے