شاعر سے پوچھ جا کے جمالِ کمالِ دوست

وہ ہی بتا سکے گا تجھے حسبِ حالِ دوست

 

پایانِ عمر میں بھی نہ خواہش وصال کی

اندوختہ نہیں ہے فراقِ جمالِ دوست

 

یہ اور بات ہے کہ ملے بھی نہ بے دھڑک

یہ اور بات ہے کہ گلے سے لگالے دوست

 

اک لمحہ بے دریغ سا آیا تھا میرے پاس

بعد از مجھے مزید ہوا ہے ملالِ دوست

 

گزرے ہیں بیس سال کم و بیش اس طرح

مجھ کو ملالِ دوست رہا یا خیالِ دوست

 

کیا قدر ہے شراب کی، مجھ تشنہ لب سے پوچھ

میں بڑھ کے تھام لوں جونہی ساغر اچھالے دوست

 

کس طرح گفت گو کروں اس پیچ و خم کی میں

وہ آپ ہی مثال ہے کیا ہو مثالِ دوست

 

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے