جناب ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب

السلام علیکم

ماہنامہ "سنگت” کے جون 2019 کے شمارے میں رائے احمد خان کھرل شہید کے بارے میں آپ کا مضمون پڑھا۔ اتفاق سے میں نے حال ہی میں اس بارے میں کچھ باتیں مختلف کتابوں سے پڑھی ہیں۔ میں تھوڑی سی معلومات "سنگت” کے توسط سے قارئین سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ تحریر میں کسی معلوماتی غلطی کیلئے پیشگی معذرت چاہتا ہوں۔

خیر اندیش

جاوید اقبال سہو

خانیوال

1849 میں ایسٹ انڈیا کمپنی پنجاب پر قابض ہو گئی۔ مئی 1857 میں جنگ آزادی کا آغاز ہوا جو دنوں میں ہی ناکامی سے دوچار ہو گئی۔ جنگ آزادی کے شعلے سرد ہوئے تو اقتدار ملکہ برطانیہ کے پاس چلا گیا۔ اگست 1857 میں راوی کے کناروں پر ایک گوریلا جنگ چھڑ گئی جو فرنگی کیلئے ایک نیا درد سر بن گئی۔ راوی کے کناروں پر تین جنگل تھے۔ لکھی جنگل، گشکوری جنگل اور فتح پور جنگل۔ ان جنگلات میں آباد "جانگلی” ذاتوں کے باشندے اپنی مٹی کی محبت میں رائے احمد خان کھرل کی قیادت میں ایک چھاپہ مار جنگ لڑنے کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ وہ فرنگی (اور اس کے وفادار پٹھووں) کی زبان مین "باغی” کہلائے۔ رائے احمد خان کھرل کو ستلج کے وٹو اور جوئیہ قبائل کی حمایت حاصل ہوئی۔ راوی کے مردانہ، فتیانہ، بھٹی اور باقی تمام برادریوں کے لوگ روایتی ہتھیار لاٹھی، کلہاڑی، چھری اور چاقو تھام کر فرنگی کی بندوق اور توپ کے سامنے سینہ سپر ہو گئے۔ جنگ آزادی کی طرح یہ جنگ دیسی اور فرنگی فوجوں کے درمیان نہ تھی۔ یہاں دیہاتیوں کے جتھے چھاپہ مار کارروائیوں کی صورت میں فرنگی فوج پر حملہ آور ہو رہے تھے۔ سڑکوں کی ناکہ بندی کر رہے تھے، اور فرنگی کی ڈاک چوکیوں کو آگ کے شعلوں پر رکھ رہے تھے۔

رائے احمد خان کھرل نے نواب آف بہاولپور سے مدد لی اور توڑے دار بندوقیں اور بارود کی کچھ مقدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ فرنگی فوج نے اس کا پیچھا کیا۔ وہ کشتی پر راوی عبور کر گیا۔

رائے احمد خان کھرل جو نوجوانوں کی سی پھرتی اور جوش سے اس جنگ کی قیادت کر رہا تھا، ایک معرکے میں دوران نماز 82 سال کی عمر میں شہید ہو گیا۔ اس کی شہادت میں فرنگی کی روایتی مکاری اور کچھ غداروں کے ہاتھ نے کام دکھایا۔

رائے احمد خان کھرل کی شہادت کے بعد یہ لڑائی ختم ہونے کی بجائے مزید پھیل گئی۔ سبھی قدیم قصبات دیپالپور، حویلی لکھا، گوگیرہ، جھامرہ، کمالیہ، ہڑپہ، محمد پور، ساہی وال، چیچہ وطنی اور تلمبہ تک کی دیہاتی برادریاں، خانہ بدوش، جرائم پیشہ گروہ، زمیندار اور چھوٹی بڑی ذاتوں کے سب لوگوں نے جان ہتھیلی پر رکھ لی۔ رائے احمد خان کھرل کی شہادت کا بدلہ 27 سالہ اسسٹنٹ کمشنر "برکلے” کے قتل کی صورت میں لیا۔ اس کی لاش واپس کرنے کی بجائے راوی میں بہا دی۔ ساہیوال میں "برکلے کی یادگار” اب بھی اس کے عبرت ناک انجام کی گواہ ہے۔ دوسری طرف خانیوال کا قصبہ "قتالپور” ہے جہاں کے غدار زمینداروں نے دھوکے سے آزادی کے متوالے مجاہدین کو شہید کرایا اور فرنگی سے انعام میں جاگیریں حاصل کیں۔

راوی کے "دوہے” اور "ماہیے” اب بھی "جانگلی” شہیدوں کی سرفروشی اور "برکلی” کے قتل پر فرنگی کی بوکھلاہٹ کی داستانیں سناتے ہیں۔

لاٹھی، چھری، چاقو، کلہاڑی اور توڑے والی بندوق کہاں تک آتشیں اسلحے اور توپ کا مقابلہ کرتے جو ایک اور منفرد ہتھیار نے کر دکھایا۔ یہ ہتھیار "ڈھول” تھا جس کی تھاپ پر جھومر ڈالتے جانگلی مجاہدوں کے جتھے فرنگیوں پر اچانک ٹوٹ پڑتے۔ بے تحاشا ڈھول پیٹے گئے جس سے فرنگیوں کے دل دہل گئے۔ ڈھول کی آواز نے اس لڑائی میں کمیونیکیشن کا کردار نبھایا۔ ڈھول کا "ردھم” اور "دھمک” مخصوص پیغامات بھیجنے اور جنگی کاروائیوں کی اطلاعات دینے کیلئے استعمال ہوتے رہے۔ عام دیہی لوگ بھی ان صوتی اشاروں کو سمجھتے اور محفوظ جگہوں پر منتقل ہوتے رہے۔ (آزادی کی اس لڑائی کا دردناک پہلو غدار زمینداروں کا وہ شرمناک کردار ہے جس کے باعث انگریز نے جنگلوں میں پناہ گزیں ہزاروں بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو بڑی بیرحمی سے شہید کر دیا)۔ راوی پر جنگ آزادی کے سرفروش مجاہدین کی یاد میں "ڈھولا” گایا جاتا ہے۔ انگریز اب بھی ڈھول سے ڈرتا ہے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے