پیش منظر

اپریل 2019 کی بات ہے۔ ضلع لاڑکانہ کے ایک غریب علاقے رتو ڈیرو کے بعض گھرانوں کو پریشانی تھی کہ ان کے ننھے منھے بچوں کا بخار کئی دنوں سے ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ بچوں کا ڈاکٹر مظفر گھانگھرو ان کا علاج کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہا تھا۔ یہ لوگ اپنے بچوں کو لاڑکانہ کے ایک اور ہسپتال میں ڈاکٹر اربانی کو دکھانے لے گئے۔ ڈاکٹر کو خیال آیا کہ اگر بخار پرانا ہو جائے تو اس کا ایک  سبب ایچ آئی وی انفکشن بھی ہو سکتا ہے چنانچہ ڈاکٹر نے والدین کو احتیاطاَ بچوں کا ایچ آئی وی ٹیسٹ کروانے کا کہا۔

اپریل کی 24 تاریخ کی رات یہ بھیانک خبرملی کہ ایک بچے کا ٹیسٹ پازیٹو نکلا ہے۔اگلے روز تک 15بچوں میں وائرس کی تشخیص ہوگئی۔ بچوں کی عمریں 2 ماہ سے 8 سال تک تھیں۔ اپریل کی 28 تاریخ کو ایچ آئی وی سکریننگ شروع کر دی گئی۔ 8 مئی تک پروگرام کو مزید پھیلا دیا گیا۔

لوگوں میں تشویش پھیل گئی، ان کے جم غفیر سکریننگ کروانے امڈنے لگے۔ میڈیا کے ہاتھ ایک نیا موضوع آگیا۔ ایک سستے سے میڈیا چینل نے خبر پھیلا دی کہ علاقے کا ایک بیمار ڈاکٹر بچوں کو اپنے خون سے آلودہ سرنجوں کے ذریعے اس بیماری میں مبتلا کرکے کسی انتقام کا نشانہ بنا رہا ہے۔ ڈاکٹر کو حراست میں لے کر اس کا ٹیسٹ کرایا گیا جو مثبت نکلا اور اسے پابندِ سلاسل کر دیا گیا۔

مئی کے اواخر میں شکارپورسے خبر ملی کہ ایک شوہر نے اپنی32 سالہ بیوی کا ٹیسٹ مثبت آنے پر،چار بچوں کی اس ماں کو، بد چلنی کے شبے میں جان سے مار دیا اور لاش ایک درخت سے ٹانگ دی۔

رتو ڈیرو میں کیا ہو رہا تھا؟ اس پر بات کرنے سے قبل ایچ آی وی کا ایک مختصر احوال کہ معلوم ہو کہ ہمارا سامنا کس بلا سے ہے

ایچ آئی وی/ایڈز

ہمارے گردوپیش ہر طرف نادیدہ جراثیموں /مائکروب کے انبار لگے ہیں بلکہ ہمارے وجود کے بعض مقامات پر بھی ان اندیکھے بن بْلائے مہمانوں کا ڈیرہ ہوتا ہے جو ہمارے لئے پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں۔ فطرت نے انسان کو مدافعت کے مختلف نظام عطا کئے ہیں جن میں سے ایک خون کے سیلز (cells) کا نظام بھی ہے جو جسم میں داخل ہونے والے مایکروب سے جسم کو نقصان دینے سے باز رکھنے کی خاطر لڑائی کرتا ہے۔ ان میں سے ایک اہم سپاہی "ٹی سیلز ” کہلاتا ہے۔

ایچ آئی وی  (ہیومن امیونو ڈیفیشنسی وائرس) ایک خطرناک وائرس ہے۔  جو انسان کے مدافعتی نظام کو کمزور کرتا ہے۔ کانگو میں 1959 میں ایک مریض کے خون میں ایک وائرس ملاجومغربی افریقہ کے چمپانزی بندروں میں ہوتا ہے۔ تجزیے سے اندازہ ہوا کہ یہ وائرس 1940 کے اواخر یا 1950 کے اوائل میں کسی نا معلوم طریقے سے انسانوں میں وارد ہوا اور میوٹیشن نامی طریقے سے نئی صورت اختیار کر لی۔ زیادہ گمان یہی ہے کہ بندروں کے شکار کے دوران اور ان کا گوشت کھانے سے یہ بلا وارد ہوئی۔ افریقہ میں آہستہ آہستہ پھیلتے یہ مرض عالمی سطح پر مسئلہ بن گیا۔ 1970 کی دہائی میں ریاستہائے متحدہ امریکہ کے شہروں نیو یارک اور کیلیفورنیا میں چند مردوں میں بعض غیر معمولی  قسم کے نمونیا، کینسر و دیگر امراض رپورٹ ہوئے۔ یہ لوگ مردوں سے جنسی روابط رکھتے تھے اور ان کا مدافعتی نظام بہت کمزور ہو چکا تھا۔  1982 میں پبلک ہیلتھ کے لوگوں نے ان مزکورہ مجموعہء  علامات  کے لئے”ایڈز”

” AIDS – Acquired immunodeficiency syndrome,”

کی بیماری کی کا نام استعمال کرنا شروع کردیا۔ امریکہ میں اس مرض کی کھوج (سرویلینس) شروع ہو گئی۔ 1983 میں جا کر سائنسدان اس وائرس کو پہچان گئے جو ایڈز کا باعث بن رہا تھا۔ اسے ایچ آئی وی کا نام دیا گیا۔

ایچ آئی وی ایک انتہائی چھوٹا وجود ہے جو جسم میں ایک بار داخل ہوجائے تو قوت مدافعت میں کمی کرتا جاتا ہے۔ جو بھی علاج کیا جائے مرض سے چھٹکارا نہیں ملتا بس مریض دواؤں کے سہارے جیتا ہے۔ دوائیں نہ ملیں تو مریض دھیرے دھیرے انتہائی حالت میں گرفتار ہوتا ہے۔  ایسے عالم میں کہ جب مریض میں  "ٹی سیلز” نامی خلیوں کی تعداد 200 تک یا اس سے کم ہو جائے تو کوئی ایسا مایکروب بھی جسم کو بیمار کر دیتا ہے جو عام حالت میں جسم کی قوت مدافعت سے ختم کیا جاسکتا ہے۔  ایسی حالت میں کہا جاتا ہے کہ مریض کو ایڈذ

(AIDS: Acquired Immuno deficiency syndrome)

ہو گئی ہے۔ ایڈز ایچ آئی وی مرض کی ایک خطرناک حالت ہے جس سے بچاؤ کی ہرتدبیر کرنا لازم ہے۔ ایڈز کا معالجہ متاثرہ فرد کی زندگی کو سہل بنا سکتا ہے، اس کی طوالت میں کچھ اضافہ کر سکتا ہے لیکن اس مرض کی ابھی تک کوئی یقینی شفاء نہیں  تاہم جدید ٹیکنالوجی نے ہمیں پْر امید کر رکھا ہے۔

ایڈز کی علامات مختلف افراد میں مختلف ہو سکتی ہیں جن میں اہم یہ ہیں: لمفی غدودوں کا بڑھ جانا، بخار، سردی کا لگنا اور سوتے میں پسینہ۔ دست، وزن میں کمی، کھانسی اور سانس میں تنگی، مستقل تھکاوٹ، جلد پر زخم، مختلف اقسام کے نمونیائی امراض، آنکھوں میں دھندلاہٹ اور سردرد۔

ایک اندازے کے مطابق پوری دنیا میں کروڑوں افراد اس مرض میں مبتلا ہیں اور کروڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

ایچ آئی وی مریض کی جنسی رطوبتوں اور خون میں بڑی تعداد میں ہوتا ہے لیکن تھوک میں نہیں۔ چنانچہ غیرمحفوظ جنسی عمل سے، انجکشن کی سوئی کے مشترکہ استعمال سے، متائثرہ مریض کے خون کو کسی اور کو منتقل کرنے سے،  اور متاثرہ ماں سے اس کے بچے کو(دورانِ حمل، دوران ولادت یا بعد از پیدائش دودھ کے ذریعے) منتقل  ہو سکتا ہے-

لاڑکانہ کی حالیہ وبا (اپریل 2019)

لاڑکانہ قریباَ پندرہ لاکھ نفوس پر مشتمل ضلع ہے جو قریباَ 7 ہزار 4 سو کلومیٹر پرمحیط ہے۔ اس کی 80 یونین کاؤنسلز ہیں، 4 تحصیلیں ہیں۔ تعلقہ رتو ڈیروکی آبادی 3 لاکھ 31 ہزار سے زیادہ ہے۔  2016-17 کے قومی سروے

میں معلوم ہوا تھا کہ لاڑکانہ پاکستان کے ان شہروں میں سے ہے جہاں ایچ آئی وی کے مریض بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ یہ مریض آبادی کے درج ذیل ذیلی گروہوں میں زیادہ ہیں۔

مخنث/ہیجڑا جسم فروشوں کی آبادی میں 14.2فیصد

انجکشن سے نشہ کرنے والوں میں 12.5 فیصد

مرد جسم فروشوں میں 3.1فیصد

جسم فروش عورتوں میں 2.5فیصد

 

پس منظر

لاڑکانہ کی سیاسی اہمیت کا یہی حوالہ کافی ہے کہ یہ پاکستان پیپلز پارٹی کا سیاسی مستقر ہے۔ ضلع میں صحت کی مجموعی صورتِ حال پریشان کن ہے۔ حالیہ چند برسوں میں ایچ آئی وی کی یہ تیسری وبا پھوٹی ہے۔ 2003 میں انجکشن سے نشہ کرنے والے 175 افراد میں سے 17(10 فیصد) میں وائرس کی تصدیق ہوئی۔ 2016 میں ڈائلیسز کرانے والے205 مریضوں میں سے 56 افراد(27فیصد) میں وائرس کی تصدیق ہوئی اور 2019 میں عام آبادی کے بچوں میں وبا کا پتہ چلا (تا دمِ تحریر 21 مئی 2019 کو) 3436 افراد میں سے 157 (6.4فیصد)میں وائرس کی موجودگی کا انکشاف ہوا۔  ضلعے کے قحبہ خانوں (مردوں اور عورتوں، دونوں کے)، گھروں کی سطح پرعصمت فروشی اور لاتعداد چھوٹی قیام گاہوں یا سرائے خانوں میں جسم فروشی کا دھندہ چلتا ہے اور گاہکوں کو کم از کم 50 روپے تک میں جسم،رات دن ہمہ وقت، میسر ہوتے ہیں۔ سروے خبر دیتے ہیں کہ جسم فروشوں کے گاہکوں کی ماہانہ اوسط  76 ہے اور ان میں کنڈوم کا استعمال انتہائی کم (10 فیصد سے بھی کم) ہے۔ ضلع لاڑکانہ میں نقلِ مکانی کر کے آنے والے اور گھوم پھر کر روزگار تلاش کرنے والے مزدوروں کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔ انجکشن یا دیگر طریقوں سے نشہ کرنے والوں کے جھرمٹ قبرستانوں اور کچرے کے ڈھیروں کے قرب و جوار میں ملتے ہیں۔ عطائیت بھی بہت عام ہے اور جراثیموں سے تحفظ کے اقدامات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔  استعمال شدہ سرنجوں، ڈرپ سیٹ اور آلات کا استعمال بہت عام ہے۔ ضلع بھر میں بلڈ بینک عام ہیں تاہم ان میں معیاری سکریننگ کو یقینی بنانے کے حوالے سے اقدامات کے بارے میں اعداد و شمار دستیاب نہیں۔

غربت اور ناخواندگی عام ہیں۔ صحت اور حفظانِ صحت کے بارے میں آگاہی کم ہے۔

حکومت کے اقدامات

نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام اور سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام نے اپنے محدود دستیاب وسائل میں جو فوری اقدامات کئے ان میں سے چیدہ چیدہ اقدامات یہ تھے:

۔ 25 اپریل 2019 سے رتوڈیرو اور ملحقہ اضلاع میں ایچ آئی وی کی سکریننگ کیمپ لگا دیئے گئے، 3000 فوری ٹیسٹ کی کِٹس، پازیٹو مریضوں کے لئے ایچ آی وی وائرس کے خلاف ادویات، اطفال کے لئے اے-آر-ٹی فیزیشن کا انتظام، عالمی ادارہ صحت سے فوری تکنیکی معاونت کی درخواست۔

سندھ اوروفاقی سطح پر نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام نے شراکت داروں سے مل کر قلیل، وسط اور طویل مدتی حکمت عملی کی تیاری کا عندیہ دیا تاکہ صورت حال کو کنٹرول بھی کیا جائے اور آیندہ وقوع پذیر ہونے سے روکا جائے۔  نیز ایچ آئی وی ریسپانس میں کلیدی کردار ادا کرنے والے خدمات،صحت فراہم کرنے والے اداروں، ماہرین، معالجوں، ہیلتھ ورکروں اور غیر سرکاری تنظیموں کے ما بین رابطہ کاری اور اشتراک کو بہتر بنایا جائے۔  ایچ آئی وی کے حوالے سے آگاہی

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے