سنگت اکیڈمی کی ماہانہ علمی وادبی نشست ”پوہ زانت“حسبِ روایت 16جون بروز اتوار صبح ساڑھے گیارہ بجے پروفیشنل اکیڈمی کوئٹہ میں منعقد ہوئی۔ اجلاس کی صدارت اکیڈمی کے مرکزی سیکریٹری جنرل ڈاکٹر ساجد بزدار نے کی۔ ایجنڈا کے مطابق اس نشست میں ایک افسانہ، ایک سماجی علمی و ایک سائنسی مضمون پیش کیا گیا۔ اجلاس میں کوئٹہ کے علاوہ بلوچستان کے مختلف اضلاع سے آئے ہوئے ادیبوں اور نوجوانوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔

اجلاس کا آغاز عابدہ رحمان کے افسانے سے ہوا۔ انہوں نے ’مائیکان‘ کے عنوان سے افسانہ پیش کیا۔ یہ ایک ایسی نوجوان لڑکی کی کہانی ہے جو سیدزادی ہونے کے باعث پسند کی شادی نہیں کر سکتی، حتیٰ کہ اِس انتظار میں اُس کی عمر گزر جاتی ہے۔ افسانے پر گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے ڈاکٹر منیر رئیسانی نے کہا کہ یہ ایک ایسا موضوع ہے جو کبھی پرانا نہیں ہوتا۔ مجموعی طورپر ایک انسانی موضوع ہے،جسے خوبصورتی سے نبھایا گیا ہے۔ خصوصاً اس کی جزئیات نگاری متاثر کن ہے۔ جیسے گاڑی کی بریک لگی تو زرد پتے دور تک بکھر گئے۔ مجھے اس سے ہیمنگوے کی یاد آ گئی۔ اس کی آدھے صفحے کی ایک کہانی ہے،”آ ویری شارٹ سٹوری“، جس میں ایسے ہی کمال کی جزئیات نگاری کی گئی ہے۔ میرا خیال ہے یہ لکھنے والوں کا مشترکہ خواب ہے کہ سماج میں ہرنوع کے امتیازات کا خاتمہ ہو۔وسیم شاہد نے کہا کہ گوکہ موضوع پائمال شدہ ہے، مگرافسانے کا آغاز اچھا ہے۔شروع سے ہی قاری کو گرفت میں لے لیتا ہے۔ روانی بھی ہے۔ البتہ اختتام میں بہتر سمجھ نہیں پایا‘یا مجھے بہتر نہیں لگا۔ اسے شاید ایک بار پھر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بہرحال مجموعی طور پر ایک کامیاب کہانی ہے۔دوستین جمالدینی نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں جتنا بولڈ اور زوردار افسانہ ہے، اسے اتنا بولڈ اور زوردار انداز میں پیش نہیں کیا گیا۔ حالاں کہ اس میں افسانے کے تمام لوازمات موجود ہیں۔ لیکن موضوع اب شاید اتنا متعلقہ نہیں۔ دس پندرہ سال پہلے ایسی صورت حال تھی۔ اب کافی تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ چیزیں تبدیل ہو رہی ہیں۔ اس لیے مجھے اس کا اختتام اتنا مضبوط نہیں لگا۔ اسے شاید دوبارہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ امید ہے کہ عابدہ کا اگلاافسانہ اس سے زیادہ مضبوط ہو گا۔پروفیسر جاوید اختر نے کہا کہ اس میں ایک اہم عنصر مسنگ ہے جو مقامی پن ہوتا ہے، جیسے کچھ پتہ نہیں چلتا کہاں کی بات ہو رہی ہے، کس زمانے کی بات ہو رہی ہے۔ یہ ایک کمی ہے۔ علاؤالدین نے کہا کہ یہ بات ٹھیک ہے کہ حالات تبدیل ہو رہے ہیں لیکن آج بھی ہمارے ہاں ایسے قبائلی رویے موجود ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ عابدہ رحمان نے اس پورے خطے کی خواتین کی نمائندگی کی ہے۔ اختتام البتہ کچھ واضح نہیں، یا شاید مجھے ایسا محسوس ہوا۔ شاہ محمد مری نے کہا کہ جہاں تک مقامی پن کا تعلق ہے وہ تو افسانے کے مین کریکٹر کے نام سے ہی پتہ چلتا ہے کہ کہاں کی بات ہو رہی ہے۔ البتہ عابدہ نے سید کو کردار بنا بنایا ہے جو ہمارے ہاں تعداد میں بھی اور طاقت میں بھی شاید اتنا مستحکم نہیں۔ اس نے دراصل سردار، جاگیردار اور فیوڈل کی بات کی ہے۔ جو زیادہ طاقت ور ہیں۔ ڈاکٹر ساجد بزدار نے کہا کہ مجموعی طور پر ایک خوبصورت کوشش ہے۔ البتہ اسے افسانے کی طرح پیش نہیں کیا جا سکا۔ ایک قصہ گو، افسانہ پڑھتے ہوئے کرداروں کی کیفیات کو بھی دکھاتا ہے۔ دوسرا اختصار شاید اس کی کمزوری ہے۔ اسے مزید پھیلانا چاہیے تھا، جس سے اختتام بھی مزید واضح ہو سکتا ہے۔ منظرنگاری اور جزئیات اچھی ہیں۔ لیکن اگر میں لکھتا تو شاید اس کا ختتام یوں نہ کرتا۔ اس پہ ڈاکٹر منیر رئیسانی نے کہا کہ اول تو شاعری کی طرح افسانے کی کوئی مخصوص تعریف آج تک متعین نہیں کی جا سکی۔ بعض اوقات چند جملوں کے لیے بھی افسانہ لکھا جاتا ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ اختتام ایسا نہیں ایسا ہوتا،یہ آپ کی خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن افسانہ نگار کو ایسی کوئی ہدایت نہیں دی جا سکتی، اپنی رائے دی جا سکتی ہے۔ ڈاکٹر بیرم غوری نے کہا کہ عابدہ کے ساتھ شروع سے فکری سفر کا جو مسئلہ درپیش رہا ہے، وہ یہاں بھی موجود ہے۔ جو مسئلہ افسانے کی بنیادی فکر کے بطور بیان کیا گیا ہے، آخر میں ہیرو یا ہیروئن اس سے دست بردار ہو گیا ہے۔ یہ رویہ تحریر کی ضروریات کو بھلے پورا کرتا ہو مگر مقاصد کو نقصان پہنچاتا ہے۔ ہیرو کو‘ہیرو ہی رکھیں، اسے زندہ رہنے دیں۔ جیئند جمالدینی نے کہا کہ اختصار افسانے کی خامی نہیں، خوبی ہے۔ یہ اگر نہ ہو تو کہانی ناولٹ یا ناول بن جائے گی۔ عابدہ نے اختصار کے ساتھ اپنی بات خوبصورتی سے مکمل کی ہے۔ آخر میں افسانہ نگار عابدہ رحمان نے گفتگو کرتے ہوئے تمام سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ افسانے کو یہاں پیش کرنے کا مطلب یہی ہے کہ میں اسے مکمل نہیں سمجھتی اور اس پہ رائے چاہتی ہوں۔ ہر قسم کی رائے کو سنتی ہوں اور اسے اپنے لیے ایک رہنما سمجھتی ہوں۔ البتہ جو مشورہ یا تجویز مجھے اپنی فہم کے مطابق بہتر لگتا ہے، اسی کو اپناتی ہوں۔

نشست کے دوسرے حصے میں ایک سائنسی مضمون پیش ہوا، جو صحت سے متعلق تھا۔ ایڈز کے حوالے سے یہ مضمون ڈاکٹر سلیمان قاضی نے اسلام آباد سے بھجوایا، جسے ڈاکٹر منیر رئیسانی نے پیش کیا۔ یہ مضمون خصوصاًچند ماہ قبل لاڑکانہ میں ایچ آئی وی کے سیکڑوں کیسز سامنے آنے کے واقعہ کے پس منظر میں لکھا گیاتھا۔ اس میں ایچ آئی وی کا مکمل تعارف، تاریخی پس منظر، لاڑکانہ کا سماجی پس منظر، وہاں اس مرض کے پھیلنے کی وجوہات، اس کے اثرات اور حالیہ صورت حال کا جائزہ لیاگیا۔ مضمون کے آخر میں اس سے بچنے کی تجاویز اور خصوصاً بلوچستان میں اس کے اثرات اور علاج سے متعلق تجاویز بھی دی گئیں۔ مضمون سے متعلق دوستین جمالدینی کا سوال تھا کہ ایک زمانے میں ہم جب بیرونِ ملک گئے تو وہاں ایک اسٹڈی کے دوران ہمیں معلوم ہوا کہ یہ مرض عالمی قوتوں کی طرف سے ایک جنیٹیکل وار کی صورت میں پھیلایا جا رہا ہے۔ اس پہ ڈاکٹر منیر رئیسانی نے کہا کہ یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے۔ یہ مرض پہلی بار سن اَسی کی دہائی میں سامنے آیا۔ اور اس وقت کی عالمی صورت حال ہم سب جانتے ہیں۔ لیکن اب یہ ایک ٹھوس حقیقت اور ایک چیلنج کی صورت ہمارے درمیان موجود ہے۔ اس لیے دونوں باتیں کسی حد تک درست کہی جا سکتی ہیں، لیکن اب اصل چیلنج اس سے نمٹنا ہے۔ اکبر ساسولی کا سوال تھا کہ ایچ آئی وی اور ایڈز میں فرق کیا ہے۔ اس پہ ڈاکٹر منیر رئیسانی نے بتایا کہ ایچ آئی وی بنیادی طور پر وائرس ہے جو کسی بھی جسم میں موجود ہو کر اسے ایڈز کے مرض میں مبتلا کر سکتا ہے۔ ایچ آئی وی کا ہونا ایڈز نہیں، لیکن بروقت علاج نہ ملنے سے یہ ایڈز کا مرض پھیلنے کا سبب بن سکتا ہے۔ سرور آغا کا سوال تھا کہ وائرس اور ڈزیز (بیماری) میں بنیادی فرق کیا ہے؟۔ ڈاکٹر منیر رئیسانی نے کہا کہ وائرس ایک جرثومہ ہے، جب کہ ڈزیز (بیماری) جراثیم کا مجموعہ ہے، جو جسم کے مدافعتی نظام پہ اثرانداز ہو کر اسے کمزور بناتا ہے۔

اس کے بعد نشست کے تیسرے حصے میں پروفیسر جاوید اختر نے اپنا مضمون ”ادب اور طبقاتی جدوجہد“ پیش کیا۔اس میں اس نے طبقاتی جدوجہد میں ادب اور ادیبوں کے کردار کا تاریخی جائزہ لیتے ہوئے حقیقی ادب اسی کو قرار دیا جو عوام کے مفادات کی ترجمانی کرے۔شاہ محمد مری نے سوال کیا کہ تاریخی حوالے اپنی جگہ لیکن آج کے ادب کی بھی بات ہونی چاہیے کہ یہ کہاں کھڑا ہے اور کس کی ترجمانی کر رہا ہے۔ جاوید اختر نے جواب میں کہا کہ میں نے ذکر کیا کہ آج سنگت اکیڈمی ادب میں عوامی جذبات کی ترجمانی کر رہی ہے۔ ایک طرف وہ ادیب ہیں جو سرکار دربار کی ہر تقریب میں موجود ہوتے ہیں، صدارت کرتے ہیں، تمغے لیتے ہیں،یہ بھی ادب کا ایک کردار ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔دوسری طرف وہ ہوتے ہیں جو عوام کے ساتھ جڑے رہتے ہیں،ان کے مسائل و معاملات پہ لکھتے رہتے ہیں، یہ بھی ادب کا ایک کردار ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں بلوچستان میں سنگت اکیڈمی یہی کردار ادا کر رہی ہے۔

سرور آغا نے سوال کیا کہ جس کردار کی آپ بات کر رہے ہیں، کیا آج اس کی کہیں کوئی اہمیت و ضرورت باقی رہ گئی ہے؟۔ جاوید اختر نے کہا کہ آج بھی جہاں جہاں عوام دوست ادیب اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، یہی اس کی ضرورت و اہمیت کا ثبوت ہے۔ ظفر معراج نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ میں مجموعی طور پر ایسی مجالس سے سیکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ مجھے عابدہ کا افسانہ بھی اچھا لگا۔ اس کا کرافٹ اچھا لگا۔ اور یہ کمزوری تینوں مقررین میں موجود تھی۔لیکن مجموعی طور پر یہ ایک حوصلہ افزا مجلس ہے، ہم سب یہاں سے امید لے کر جا رہے ہیں۔

اس کے بعد صدرِ مجلس ڈاکٹر ساجد بزدار نے اپنی تقریر میں تمام شرکا کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ آج کی نشست میں قابلِ اطمینان ترین بات یہی ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں آپ دوستوں نے اپنی مصروفیات چھوڑ کر یہاں شرکت کی اور ہمارے ساتھ موجود رہے۔ عابدہ کا افسانہ مجموعی طور پر کامیاب رہا، سب دوستوں نے اسے سراہا۔ ڈاکٹر سلیمان قاضی کا مضمون نہایت اہم موضوع پر تھا،اس سے ہم سب کے علم میں اضافہ ہوا۔ پروفیسر جاوید اختر نے نہایت اہم باتیں کیں، جو ہماری نظریاتی تربیت کا حصہ ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ دوست آئندہ بھی اسی طرح سنگت سے جڑے رہیں گے۔

تقریب کے آخر میں قراردادیں پیش کی گئیں۔ یہ قراردادیں سمو راج کی ڈپٹی سیکریٹری نوربانو نے پیش کیں۔ قرادادوں کا متن درج ذیل ہے:

۔ 1۔سنگت کا آج کا یہ اجلاس محترمہ جاں بی بی بزنجو کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے اس کی 96سالہ حیات میں نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط اس کی جدوجہد، بردباری، استقامت اور وفاداری کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہے۔

۔2۔ یہ اجلاس پاکستان میں پیش ہونے والے نئے سالانہ بجٹ کوحکومت وریاست کی بجائے آئی ایم ایف کا بجٹ سمجھتے ہوئے اسے عوام دشمن قرار دیتا ہے۔ ہم اس عوام دشمن بجٹ کو مکمل طور پر رد کرتے ہیں۔

۔ 3۔ یہ اجلاس سمجھتا ہے گو کہ پاکستان میں موجود پارلیمانی سسٹم اور بورژوا جماعتیں عوامی مفادات کی ہرگز ترجمان نہیں، مگر ہم ملک میں احتساب کے نام پر جاری انتقام کو بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھتے اوراسے پارلیمانی نظام کو کمزور کرنے کا ایک حربہ سمجھتے ہوئے اس کی مذمت کرتے ہیں۔

۔ 4۔یہ اجلاس ملک میں صوبوں کو ملنے والی خودمختاری کی حامل آئین کی اٹھارویں ترمیم کے خلاف ہر قسم کی سازشوں کی مذمت کرتے ہوئے اس کے حقیقی نفاذ کے مطالبے کو دہراتا ہے۔

۔ 5۔ یہ اجلاس ایرانی حکومت کو ایک بنیاد پرست اور رجعت پسند سمجھنے کے باوجود، ایران کے خلاف امریکی جارحیت کو سامراجی ہتھکنڈوں سے تعبیر کرتے ہوئے اس کی مذمت کرتا ہے۔

۔ 6۔ یہ اجلاس یہ سمجھتا ہے کہ ملک میں دہشت گردی پر خاصی حد تک قبول پا لیا گیا ہے اس لیے اجلاس یہ مطالبہ کرتا ہے کہ جنگی قوانین ختم کر کے معمول کے جمہوری حالات بحال کیے جائیں۔

شرکا نے قراردادوں کی متفقہ طور پر منظوری دی، جس کے بعد نشست اختتام پذیر ہوئی۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے