سخت گرمی کے باوجود میں فلیٹ سے اتر آیا۔ دوپہر سخت ہونے کی وجہ سے سواری ملنا مشکل تھا۔ اکا دکا رکشے آرہے تھے۔ اور سواریوں سمیت کٹ کٹ کرتے ہوئے جارہے تھے۔

بے حد پریشانی کے عالم میں ایک لاغر شخص کو بازار کی طرف سے آتے ہوئے دیکھا۔

آتے اور جاتے ہوئے تو دوسرے لوگ بھی دیکھے پر اس شخص کے چہرے کے تاثرات نے ذہن میں عجیب ہلچل پیدا کردی۔ وہ جیسے ہی نزدیک ہوتا گیا اس کی کشش میں اضافہ ہوتا گیا۔ اسی کشمکش نے خواہش پیدا کردی کہ اس کا تعارف لینا کسی بھی صورت میں ضروری ہے۔کیوں ضروری ہے؟ اس کا جواب میرے پاس نہیں تھا۔ وہ جیسے ہی نزدیک پہنچا میں اپنے آپ کو روک نہ سکا۔

آپ کا تعارف۔۔

میں۔۔ صبح کو جیسے ہی سورج اپنی کرنیں نکالتا ہے اور شام کو دنیا کو اپنی تاریکی میں پھینک کر خود کسی کونے میں چھپ جاتا ہے میں بھی اس کے ساتھ گردش میں ہوتا ہوں۔ میرا خون پسینہ گھولتا رہتا ہے، سکون اور آرام کی خواہش ہونے کے باوجود بھی ان کو حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ یہی سبب ہے جو میری حالت باعثِ کشش یا رحم جیسا رہتا ہے اور اپنے سینے میں سکھ کا سانس لینے کی آرزو رکھ کر عمر گزار دیتا ہوں۔ میں چین اور آرام کی حقیقت سے ناآشنا رہ کر بیگانہ اور غریب الوطن رہتا ہوں آپ میرا پوچھ اور سن کر کیا کروگے؟۔

اوہ“ آپ سے تو ہمدردی ہے، بتاؤ آپ کون ہو اور کیا کرتے ہو۔۔۔۔ مزدور تو نہیں ہو؟

”ہاں‘ میں مزدور ہوں، پر عام مزدورکی طرح کا ندھوں پر وزن نہیں اٹھاتا۔ اور نہ ہی چھکڑے کھنچتا ہوں۔ اور نہ ہی کسی مل یا کار خانے میں صبح سے شام تک عادی بیل کی طرح اپنے پیٹ کا دوزخ بھرتا ہوں۔

میرے کاندھے پر تو قوم اور وطن کی بقا کی ذمہ داری ہے۔ جس کو نبھانے کی ہر ممکن کوشش کرتا رہتا ہوں“۔

”اچھا‘ تو اس کا مطلب ہے، آپ کا شتکار ہو۔ اور آپ کا کام ہے زندگیوں کو بقا دینا۔

”جی!۔ درست۔پر میں تو زمین میں کاشتکاری نہیں کرتا اور نہ ہی ظالم، مفت خور وڈیروں کی طرح کرسیوں اور صوفوں پر بیٹھ کر حکم چلاتا ہوں۔

میں تو انسانوں کے دلوں اور دماغوں میں بیج ڈالتا ہوں۔بھائی بندی کا پیج،پیار اور محبت کا بیج اور بہ یک وقت کھرے اور کھوٹے کو پر کھنے کا بیج“۔

اس کا مطلب ہے کہ آپ سوشل ورکر ہیں۔

”ایسے نہیں۔ میں واقعی سوشل ورکر ہوں پر فقط رفاہی کاموں سے دلچسپی نہیں ہے۔ میں تو کرداروں کو ابھارنے اور عزتِ نفس پیدا کرنے کی کوشش کرتاہوں۔ راستے اور منزلیں دکھاتا ہوں۔ احتیاط اور صبر کو ذہن نشین کراتا ہوں۔ کیونکہ بے احتیاطیاں جانوں کی دشمن ہوتی ہیں۔

ایسے ہوتے ہوئے بھی حسن اتفاق ہوتے رہتے ہیں، کبھی نورِ نظر رہتا ہوں تو کبھی زیر عتاب آجاتا ہوں“۔

آپ ڈرائیور تو نہیں ہو؟‘سچ ہو ناں؟

”ہاں‘ میں ڈرائیور ہوں پر معاف کرنا میں گاڑیاں اور موٹر یں نہیں چلاتا۔مجھے موٹروں اور بنگلوں سے نفرت ہے نوجوان!۔ یہ سب عیش وعشرت کے سامان ہیں۔

البتہ میں ذہنوں اور دلوں کے اسٹیرنگ قبضے میں لیکر غلط راہوں اور ویرانیوں سے بچانے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں باپ کی شفقت اور ماں کے پیار کا دوسرا روپ ہوں۔

میں تہذیب اور ثقافت تمدن اور اخلاق کا آئینہ دار ہوں۔ ماضی کا محافظ اور مستقبل کا معمار ہوں۔

میرے من میں ہر وقت وطن اور قوم کی محبت موجزن رہتی ہے اور میں تو اس کو ایک پل کے لیے بھی فراموش نہیں کرسکتا“۔

اچھا! میں سمجھ گیا۔آپ استاد یعنی ماسٹر ہیں۔

”واہ جناب،خوب پہچانا آپ نے۔  میں بالکل استاد ہوں۔ پر یقین رکھو میں قوم کے نونہالوں کو کمروں، مسجدوں اور مکتبوں میں چٹا ئیوں پر بٹھا کر یا بنچوں پر کھڑا کر کے نہیں پڑھاتا اور نہ۔ ان کی غلطیوں پر لاٹھیوں، ڈنڈوں اور رُولوں کے ساتھ چھید کرتا ہوں۔ اور روپ نکھارتا ہوں۔

”اچھا تو آپ مصور بھی ہیں؟“ میں نے فوراً بات کو سمجھتے ہوئے کہا۔

”سچ پوچھو تو میں مصور ہی ہوں پر خیالی تصویریں نہیں بناتا اور نہ ہی ان کو لافانی قرار دیتا ہوں میں تو حقیقی جسمانی مشنری کو چیک کرتا ہوں۔ اور اس کی فضا، ماحول کو درست رکھنے کی کوشش کرتا ہوں“۔ اس نے اپنے انداز میں جواب دیا۔

اب سمجھا ہوں۔ آپ مکینک ہیں۔ خامخواہ چھپا رہے تھے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے