مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے کہ جب بے نظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونی تھی۔ میں بے حد پریشان تھی کہ پھر ایک منتخب حکومت بیورو کریسی کی سازشوں کا حصہ بن جائے گی۔ میں اپنے ایک ترقی پسند استادسر علی افتخار صاحب کے پاس گئی۔ میں نے بھیگی آنکھوں سے اْنہیں دیکھا اور پوچھا کہ اَب کیا ہوگا۔۔۔۔؟ انہوں نے مسکراتے ہوئے مجھے دیکھا اور کہا کہ بے فکر رہیں۔ دل کا ایک کونا بہت مطمئن ہے۔ اللہ کرم کرے گا۔ میں یہی امید کا جگنو لے کر ہوسٹل کی سمت روانہ ہوئی۔ راستے میں مخالف مذہبی متشددجماعت کے چند لڑکوں نے مجھے دیکھا اور چڑانے کے لیئے سینہ کوبی شروع کر دی۔ اور ساتھ ہی آنکھوں کو ملتے ہوئے کہتے رہے ہائے نظیراں لْٹی گئی۔

میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ میں مْٹھی بھر کر ان کی آنکھوں میں مرچیں ڈال دوں۔ مگر میں سر جھکا کرگزر گئی۔ ہوسٹل کا ٹی وی لاؤنج لڑکیوں سے بھر ا ہوا تھا۔ اسمبلی کی کاروائی دکھائی جا رہی تھی۔ بی بی بے نظیر صبرو ضبط کا استعارہ بنی ہوئی تھیں۔ میں دل ہی دل میں سوچ رہی تھی کہ یہ اعصاب کی جنگ ہے۔ اور بی بی کے اعصاب بہت مضبوط تھے۔

میری مٹھیاں بھنچی ہوئی تھیں۔ میری ساتھی طالبات ڈری ہوئی تھیں۔ وہ کبوتر کی طرح سامنے بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کررہی تھیں۔ کبھی کبھی سوالیہ انداز میں میری طرف دیکھتیں اور میں مسکرا کر ان کا حوصلہ بڑھاتی۔ حالانکہ میرا اپنا دل کانپ رہا تھا۔

یہ اعصاب شکن اور صبر آزما کارروائی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی تھی۔ مجھے جتنی سورتیں آتی تھیں وہ میں مسلسل پڑھ رہی تھی۔ میری مخالف لڑکیاں مجھے دیکھتیں اور ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو جاتیں۔ ان کے کمروں سے رزمیہ گیتوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ اے مردِ مجاہد جاگ ذرا۔۔اب وقت شہادت آیا ہے۔

اور مجھے لگتا تھا کہ میری شہادت تو قریب ہی ہے۔

مخالفوں کے فاتحانہ چہرے مجھے دہلا رہے تھے اور میری حامی لڑکیوں کی رگوں میں تو گویا خون جم ہی گیا تھا۔ ان کے پیلے پڑتے ہوئے چہرے اور مایوس آنکھیں دیکھ کر میں مزید پریشان ہو رہی تھی۔

خدا،خدا کر کے وہ لمحہ آیا۔ جب ووٹوں کی گنتی ہو رہی تھی۔ اگرچہ میرا تعلق ایک سیاسی خاندان سے تھا جو بائیں بازو کے نظریے کو سپورٹ کرتے تھے۔ میرے گھر میں سارا دن سیاسی بحثیں ہوتیں۔ الیکشن سے پہلے ورکنگ اور پھر الیکشن کے دن تک خوب دھما چوکڑی ہوتی ووٹوں کی گنتی تک ہم سب کزنز اور حامی لوگوں کے ساتھ دعائیں مانگا کرتیں۔ مگر وہاں پوری فیملی میرے ساتھ ہوتی۔ پریہاں میں اکیلی تھی۔ کوئی میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر یہ کہنے والا نہ تھا کہ just relaxاور میں یہ سوچ سوچ کے دہشت زدہ ہو رہی تھی کہ اگر خدا نہ کرے تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی تو یہ لوگ میرا کیاحشر کریں گے۔ میں انہی سوچوں میں گْم تھی کہ اسپیکر نے اعلان کیا کہ تحریک نا کام ہو گئی ہے۔ میں وہیں سجدے میں گر گئی۔ ہم سب طالبات مسکرائی ہوئی باہر آئیں۔ ہم نے کوئی شور شرابا نہ کیا۔ بس مطمئن ہو کر اپنے کافی کے  مگ لے کر باہر لان میں آگئے۔ میں بے حد relaxتھی۔

ہم سب دوست walkکے لئے بوٹینیکل گارڈن چلی گئیں۔ وہاں وہ دو دوست نظر آئے جو ہمیشہ ایک دوسرے میں ہی مگن رہتے تھے۔ آج وہ دو بھی بہت خوش تھے۔ دونوں نے مجھے مبارک باد دی۔ میں نے مسکرا کر شکریہ ادا کیا اور ہم آگے چلے گئے۔ اور وہیں ہمیں ہمارے کیمپس کے ایک ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ کا بیٹا ملا۔ جو حسبِ معمول لڑکیوں کو تاڑ رہا تھا۔ اس نے معمول کے مطابق میری ایک فرینڈ سے کہا کہ اگر آپ لوگوں کو برا نہ لگے تو میں اپنی گاڑی پہ آپ لوگوں کو ہوسٹل چھوڑ آؤں؟

میرے ماتھے پہ کئی بل آگئے۔ اور سنجیدگی سے جواب دیا کہ جب آپ کو پتہ ہے کہ ہم انکار کر دیں گی تو روز کیوں ایک ہی پیشکش کرنے آ جاتے ہیں؟ وہ خجل سا ہوگیا۔ اور چلتا بنا۔

اگلی صبح میں یونیورسٹی پہنچی۔ تو سب حامی لڑکوں اور لڑکیوں کے چہرے کھلے ہوئے تھے۔ میں نے اپنی ایک دوست کو فون کردیا تھا کہ وہ مٹھائی لیتی آئے۔

مٹھائی آتے ہی میں نے اپنے پورے ڈیپارٹمنٹ کو کھلائی اور پھر انگلش اور اسلامیات ڈیپارٹمنٹ جا کر مٹھائی بانٹی۔ میں سر! احمد کی کلاس میں گئی تمام لوگوں کو مٹھائی دے کر باہر آہی رہی تھی کہ میرے سامنے اْسی متشدد جماعت کا ایک لیڈر آگیا۔ ایک کمزور لمحے نے مجھے بنیادوں تک ہلا دیا۔ مگر اگلے ہی لمحے میں خود پہ قابو پا چکی تھی۔ اس نے مجھے جھڑکنے کے انداز میں کہا۔ کہ میری جرأت کیسے ہوئی ہے یہاں مٹھائی بانٹنے کی۔۔؟میں نے اس سے زیادہ بلند آواز میں اس کی آنکھوں میں جھانکا اور کہا کہ میری جرأت کو کبھی چیلنج نہ کرنا۔ورنہ۔۔ورنہ کیا۔۔۔۔اس نے سرد لہجے میں کہا۔۔۔ورنہ پچھتاؤ گے۔

اچھا۔۔! اس نے طنز سے مجھے دیکھا اور ایسے ہنسا جیسے میں احمق ہوں۔

میں نے بھی اسے ایسے دیکھا جیسے مجھے اس کی دماغی حالت پہ شبہ ہو۔

ہم دونوں ایک دوسرے کو گھورتے ہوئے واپس آگئے۔ دو دن تک اس کی باتیں مجھے پریشان کرتی رہیں۔ مگر سراپا میری نگاہوں میں رہا۔میں آنکھیں بند کرتی تو وہ میرے سامنے آجاتا۔ اور میں غصے سے خود کو ڈانٹتی کہ میں اس مختصر سے لمحے کی قید میں کیوں آگئی ہوں۔

اگرچہ وقت کے ساتھ میں اس لمحے کی قید سے نکل آئی۔ مگر وہ آنکھیں میرے اندر آر پار ہو رہی تھیں۔ اندر ہی اندر اتنے چھید ہوئے کہ میں نے ان کو کسی کو دکھایا نہیں۔ لیکن میں برداشت بھی نہیں کر پارہی تھی۔

وہ اکثر آتے جاتے دکھائی دیتا۔ مگر میں اْسے نظر انداز کر دیتی۔ وہ سوچتی ہوئی نظروں سے مجھے دیکھتا۔ اور میں تو ان چھید ڈالتی نظروں کو دیکھتی ہی نہ تھی۔ہاں مجھے اعتراف ہے کہ اس کی قامت مجھے پسند تھی۔ اس کے بال،رنگت سب شاندار۔۔مگر مجھے اس سے کیا لینا دینا۔ میں خود کو جھڑک دیتی۔اور آخرِکار میں اس ٹرانس سے نکل گئی۔

امتحان قریب تھا۔ میں پڑھائی میں اتنی مصروف تھی کہ مجھے نہ وہ آنکھیں یاد رہیں۔نہ ہی وہ قامت۔۔بس میں کتابوں کی دنیا میں کھو گئی۔

رزلٹ آیا تو میں نے اپنے ڈیپارٹمنٹ میں Topکیا تھا۔ میں یونیورسٹی گئی۔ وہ کہیں دکھائی نہ دیا۔میری خوشی ماند پڑ گئی۔ مگر میں اس خیال کو جھٹک دیا۔ گھر آکر میں پبلک سروس کمیشن کے امتحان کی تیاری کرنے لگی۔ میں نے امتحان دیا اور پنجاب میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ ابھی میں نے کالج جوائین ہی کیا تھا۔ کہ ایک دن مجھے سفیدلفافے میں ایک خط ملا۔ کھول کر دیکھا تو میری حیرت اور خوشی کی انتہا نہ رہی تھی۔

اْس نے مجھے ملکہئ عالیہ لکھا تھا۔یہ بھی لکھا تھا کہ وہ مجھ سے متاثر ہے۔ مجھے پسند کرتا ہے اور ملنا چاہتا ہے۔ کئی دن میں فضاؤں میں اْڑتی رہی۔ میں نے کوئی38بار جواب لکھا اور ہر بار پھاڑ دیا۔ آخر دسویں روز میں نے جواب لکھ ہی دیا۔

اور حد تو یہ ہے کہ Postبھی کردیا۔میں نے کچی پنسل سے صرف Thanksلکھا۔

لیکن دل کی یہ ضد تھی کہ وہ بْلا رہا ہے تو جانے میں کیا حرج ہے۔ میں نا چاہتے ہوئے بھی یونیورسٹی چلی گئی۔ وہ کہیں بھی دکھائی نہ دیا۔ میں سیدھی سر علی افتخار کے آفس گئی۔ سر نے گرم جوشی سے میرا استقبال کیا۔ میں نے پورے اعتماد کے ساتھ اس کا خط سر کے سامنے رکھ دیا۔ سر علی افتخار نے اپنی عینک کئی بار درست کی، کئی بار کرسی پہ پہلو بدلے۔ مگر اپنی کیفیات چھپا نہ سکے۔ وہ مجھے بیٹی سمجھتے تھے۔ یقینا کوئی گہری بات تھی۔ جو ان کے اضطراب کا باعث تھی۔

کافی دیر بعد انہوں نے عینک اْتار کر میز پر رکھی۔ مجھے گہرائی سے دیکھا۔ ایک گلاس پانی پیاگلا صاف کر کے کہا کہ اگر اس خط کے بعد اس لڑکے کے لئے آپ کے دل میں کوئی گنجائش پیدا ہوئی ہے تو مجھے بے حد تکلیف ہو گی۔ اور اگر آپ مستقبل قریب یا بعید میں اس سے کوئی رشتہ رکھنا چاہیں گی تو مجھے کوئی خوشی نہ ہوگی۔ اور میں آپ سے کسی بھی قسم کا کوئی تعلق بھی نہیں رکھوں گا۔ ان کے چہرے پہ بہت سختی تھی۔میرا روم جل رہا تھا۔ اورسر نیرو کی طرح بانسری بجا رہے تھے۔

میں سر جھکا کے واپس آگئی۔ اور شاید پہلی بار میرا سر جھکا تھا۔ خود کو گھسیٹتی ہوئی میں واپس آرہی تھی تو وہ مجھے حسبِ معمول سفید لباس میں سفید ہی گاڑی میں دکھائی دیا۔ اس نے اتنی زور سے بریک پہ پاؤں رکھے کہ چرچراہٹ دور تک سنائی دی۔ میرے اعصاب پہ بہت بوجھ تھا۔ میں نے اسے دیکھا اور میرا من بھیگ گیا۔

میں خاموشی سے لوٹ آئی۔ نہ اس نے رابطہ کیا نہ میں نے ہی پکارا۔ دس سال میرا رواں رواں اْسے پکارتا رہا مگر وہ لوٹ کے نہ آیا۔ اور آخر کار میں نے 4دفعہ دستخط کئے۔ مگر کوئی عہدنامہ پھاڑنے نہ آیا۔ کسی نے دہائی نہ دی۔ کوئی واویلہ، کوئی ہاہاکار۔۔کچھ بھی نہیں۔

میرا دم گھٹنے لگا۔ مجھ پر ساعت ساعت بھاری تھی۔ عمر کی نقدی چھن چھن بول رہی تھی۔ میں نے اقرار کا موسم پس انداز کر کے سیونگ باکس میں رکھ دیا۔

دل نے شدت سے پکارکہ تو کہاں ہے۔۔؟

پتہ نہیں کن کالے کوسوں تک میری آواز گونجتی رہی۔

اس گونج کو میں نے خود مدتوں سنا۔۔میری صدیاں اْجڑ گئیں، اک لمحہ سنوارنے کی دْھن میں۔

میں نے راضی بہ راضا صبر کا موسم اوڑھ لیا۔ اس صبر میں اب جبر نہ تھا۔ بس میں انتظار کی گھڑیوں کو بھی ٹال چکی تھی۔ نہ مجھے شکست سے سروکار تھا نہ ہی میں کسی فتح کی منتظر تھی۔بس زندگی جیئے جانے کا بے کار عمل تھی۔ سو میں جیئے جا رہی تھی۔

اچانک بالکل اچانک مجھے اس کا سْراغ مل گیا۔ میں نے پوچھا کیا وہی ہو۔۔۔؟ اس نے کہا بالکل وہی۔۔میں نے کہا

اگر وہی ہو تو اچھا لگا۔

اس نے کہا! بالکل وہی ہوں۔۔۔اورمجھے بہت زیادہ اچھا لگا۔۔

میں نے اس کی زندگی کی تلاشی لی۔ وہاں خالی جگہیں پْر ہو چکی تھیں۔ میری خالی جگہوں پہ ہْو کا عالم تھا۔

اس نے کہا کہ تمہاری جگہ اب بھی محفوظ ہے۔

میں نے کہا تمہاری اور میری کہانی بدل چکی۔ اس نے کہا کہ ہاں مگر ابھی بھی تمہاری جگہ تمہاری ہی ہے۔ اب میں نے کہا ممکن کہاں ہے؟ اس نے کہا ملاپ صرف شادی نہیں ہوتی۔ میں نے کہا! کہ فطری ملاپ یہی ہوتا ہے۔ باقی سب غیر فطری ہے۔ اس نے حسبِ معمول مجھ سے اختلاف کیا۔ مگر مجھے اچھا لگا کہ اس نے اپنی رائے مجھ پر نہیں تھونپی اس نے کہا کہ جب تک ہم آپس میں نہ ملیں کہانی کا اختتام نہ کرنا۔ میں نے اس کی پہلی بار بات مان لی۔

لیکن مدتوں گزر گئیں۔ ہم ایک دوسرے سے مل نہ سکے۔میں نے حسبِ معمول لڑے بغیر شکست مان لی۔ اب مجھے ایسا لگتا ہے۔کہ جیسے ایک پلیٹ فارم پر دو گاڑیاں رْکی ہوں۔اس کے مسافر اْترے ہوں۔ دو ٹرینوں کے دو مسافر وں میں شناسائی کا ایک لمحہ آیا ہو۔ اور اس کے بعد دونوں نے موجودہ حالات کا بھر پور جائزہ لمحوں میں لے لیا ہو۔ پھر ایک لمحہ ایسا آیا ہو کہ جب دونوں کی سوچیں آپس میں ٹکرائی ہوں۔ اچانک ریل کی سیٹی، تنہائی، اداسی،بے بسی کا طویل صحرا۔۔بس ایک مختصر لمحے میں دونوں نے طے کیا ہو۔ اور پھر اپنی اپنی ٹرین میں سوار ہو کر ماضی کا گلہ گھونٹ دیا ہو۔ اور حال پھر سے اوڑھ لیا ہو۔ بس ایک سیٹی نے ملن بھی نا مکمل اور جدائی بھی ادھوری چھوڑ کر دونوں کو ماضی سے حال کی جانب دھکیل دیا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے