ہم اکثر چُپ ہی رہتے ہیں

کوئی دستک ملے  تو  بولتے ہیں

ہمیشہ راہ تکتے ہیں

مسلسل منتظر رہتے ہیں

 

کھڑے رہ کر ہی بوڑھے ہوگئے ہیں

 

یہ پتھر

جب بھی بولیں گے

تو ان سے پوچھ لینا

وہ آہیں جو فلک کو چیر دیتی ہیں

ہم اُن کو  روز  سنتے ہیں

چٹختے ہیں مگر شکوہ نہیں کرتے

یہاں فطرت کی چلتی ہے

ہزاروں آنسوؤں سے سجتے رہنا

مقدر ہے ہمارا

کہیں پر درد ہے اور نا کوئی تشویش رہتی ہے

فنا ہونے کا خدشہ بھی نہیں ہے

مگر ایسا ہے کہ

ایسا نہیں ہے

 

ترے کھونے کے خدشے نے ہلا کر رکھ دیا ہے

 

ہمیں احساس ہے

ہر لفظ سچ ہے

اور یہ بھی سچ ہے

”دریچے“ ہم نہیں ہیں

 

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے