ایک بارِ گراں ہوں میں اتنے تئیں

ایک بارِ گرں تو ہے اے زندگی

عشق ہم پر سوار ایک سربار ہے

دیکھ ایسا نہ ہو تو بھی اَک دن مجھے

نیم راہے پہ لا کے کہیں چھوڑ دے

زیست باندھی ہوئی ایک ایسی کنیز

جیسے مال غنیمت میں لائی گئی

یا کہ پھر خوں بہا میں بیاہی گئی

ایک ایسی دلہن،

جس کے کانوں میں کوئی بھی زیور نہیں

کوئی بھی دُر نہیں

کیل کی چھید سے گویا آزاد ناک

جس میں نتھلی کا کوئی گزر ہی نہیں

رنگ کملایا پژ مردہ اور زرد زرد

اس کی لاکٹ، لباس، اور تعویز و بُول

گویا زنجیرِ طوق، آتشیں، آ  ہنی

اور دامن تہی اس کی پیدائشی

جس کو چالیسویں دن بھی خیرات میں

کوئی موتی نہ کوئی صدف، زر ملا

اس کی آنکھوں کا نور اجڑا اجڑا ہوا

عمر کی نیک بختی بھی جیسے ریا

کاش ایسا نہ ہوتا میری زندگی

کاش ایسا نہ ہوتا میری زندگی

زندگی بے مثال ایک محبوب ہے

جس کی مسکان میں نور ہی نور ہے

جس میں موسیقیت کا بہاؤ بھی ہے

جس میں نو خیزیت کار چاؤ بھی ہے

اور الھڑ پنے کار ساؤ بھی ہے

بس اسی فکر نے مار ڈالا ہمیں

اور اسی آگ میں جل رہے ہیں ابھی

تاکہ اِن تتلیوں کے حسیں بال وپر

ان کے رنگوں کے قوس وقزح کی دمک

یونہی آزاد اور شادوتاباں رہے

ایک بارِ گراں ہوں میں اپنے تئیں

ایک بارِ گراں تو ہے اے زندگی

عشق ہم پر سوار ایک سربار ہے

دیکھ ایسا نہ ہو تو بھی اک دن مجھے

نیم راہے پہ لا کے کہیں چھوڑ دے

بیڑیوں میں انہیں نہ کوئی باندھ دے

عنبر و مہلبی کی حیات آفریں

خوشبوؤں کی لپٹ، زیست کی راہ میں

بندھنوں، بیڑیوں سے رہے ماورا

سازو آواز کی بارشوں کی پھوار

زندگی کی سحر پر برستی رہے

ایک بارِ گراں ہوں میں اپنے تئیں

ایک بارِ گراں تو ہے اے زندگی

عشق ہم پر سوار ایک سربار ہے

دیکھ ایسا نہ ہو تو بھی اک دن مجھے

نیم راہے پہ لا کے کہیں چھوڑ دے

زندگی پر غموں کا گراں بار ہے

ایک تو موت کے ازلی ہونے کا غم

عشق کی جستجو، اور زمانے کا غم

بے زبانی کا غم، گنگدامی کا غم

اور سب سے سِوانا رسائی کا غم

ان غموں کے علاوہ بھی اور کتنے غم

لفظ، معنی، عمل اور خوابوں کے غم

خوش گمانی کا غم اور امیدوں کے غم

جیسے میرا وجود جیسے تیرا وجود

میں بھی گوناف ہوں تو بھی گوناف ہے

میں مکمل نہیں تو بھی پورا نہیں

کس طرح طے ہوں تکمیل کے مرحلے

ایک بارِ گراں ہوں میں اپنے تئیں

ایک بارِ گراں تو ہے اے زندگی

عشق ہم پر سوار ایک سربار ہے

دیکھ ایسا نہ ہو تو بھی اک دن مجھے

نیم راہے پہ لا کے کہیں چھوڑ دے

عشق کے حرص کے اس سمندر میں تو

لذّ توں کے سحر میں ہے خفتہ زوال

جس میں خوشیوں کا سورج بھی ڈھل جائیگا

ایسی صورت میں بتلا ؤ تو دوستو!

صورت ِ بندگانی کو کیا نام دیں؟

عیش کا، وصل کا، یا کوئی دوسرا؟؟

زلف وگیسو سنورنے، سلجھے کا نام

یاکہ پھر جیغ کو زیب دینے کا نام؟

یہ تو سب عارضی اور فنا نام ہیں

عشق کا مرحلہ ہم سے کب طے ہوا؟؟

نیم شب کو درائی کی خاطر کہیں

منزلوں پہ منازل جو چلتے رہے

خیمہ ء یار کے پاس ہی بیٹھ کر

وصل کی خواہشوں کو دلوں میں لیے

دل کی پھر دھڑکنوں کی زباں بولنا

اک گھڑی بھر کی غنچہ دہن کی ہنسی

لمحہ بھر کے لیے وصل محبوب کی

کون کہتا ہے اسکو”یہ ہے عاشقی“

دوستو منزل عشق یہ تو نہیں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے