سرِ شام شگفتہ، خواب جُومیں خاک اڑتی ہے
یہ کیا دن ہیں کہ شہر آرزو میں خاک اڑتی ہے
بچھڑنے میں ابھی کچھ دن ہیں، لیکن وصل بھی کیا ہے
چراغوں اور ہوا کی گفتگو میں خاک اڑتی ہے
خودان کے گھر اجڑنے پر نہیں اک آنکھ بھی پر نم
جنہیں غم، خیمہِ فرش ِعدومیں خاک اڑتی ہے
ہماری تشنہ کامی تو ستاروں تک چلی آئی
وہی ہے پیاس ہونٹوں پر، گُلو میں خاک اڑتی ہے
یہ باغِ زندگی سب کے لیے کب ایک جیسا ہے
کسو میں پھول کھلتے ہیں، کسو میں خاک اڑتی ہے
بہت چاہے گئے لوگوں کی خوشبو تھی ہواؤں میں
وہ جن کے بعد دل کے کاخ وکُومیں خاک اڑتی ہے
وہی ہے شہر، دروازے، وہی ہیں موڑ اور گلیاں
وہ بدلے تو نہیں،لیکن سبُھومیں خاک اڑتی ہے