”اُردو زبان میرے لئے وسیلہ رزق بھی رہی اور جو اچھی بری شہرت مجھے ملی اور جو دو چار کتابیں میں نے لکھیں اور ترکی کی انقرہ یونیورسٹی کے علاوہ جاپان کی اوساکا یونیورسٹی میں اور اس سے پہلے کوئٹہ،رحیم یارخان،ملتان،فیصل آباد یا سیالکوٹ کی درسگاہوں میں اسی زبان کی جو تدریس کی اُس کی بنیاد پر میں کہہ سکتا ہوں کہ اردو زبان میں چار،پانچ خوبیاں تو مسلّمہ ہیں۔

۔1۔ یہ بھی پاکستان کی دیگر زبانوں کی طرح جدید ہند آریائی زبانوں کے کنبے میں شامل ہے، جو گزشتہ ایک ہزار برس میں پروان چڑھیں۔ اس لئے اس کا رسم الخط اور بعض کلمات اوراُن کی صوتی مماثلت ہے،جو سفر کی سہولتوں، سوشل میڈیا اور ایک دوسرے سے ملنے یا مشترک تجربات کے سبب بڑھتی جا رہی ہیں یا کم از کم ان کے امتیازات نامانوس نہیں رہے۔

۔2۔یہ پاکستان میں رابطے کی سب سے بڑی اور موثر زبان ہے۔

۔3۔ناصرف جامعہ کراچی میں اُردو ایک لازمی مضمون کے طور پر پڑھائی جاتی ہے بلکہ ملک کی کم وبیش 35سرکاری اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں اُردو کے شعبے موجود ہیں۔ صوبہ پنجاب میں انٹرمیڈیٹ کے طالب علموں کیلئے یہ ایک لازمی مضمو ن کا درجہ رکھتی ہے۔

۔4۔جاپان کی ٹوکیو اور اوساکا یونیورسٹی میں شعبہ اُردو ایک سوبرس پرانا ہے اور اس کا سہرا مولانا برکت اللہ بھوپالی اور کچھ ایسے بزرگوں کے سر پر ہے جو دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ سے آزاد۔ی پانے اور جاپان سے مدد لے کر آزاد ہند فوج بنانے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ اسی طرح ایران، چین، آذر بائیجان، انگلستان، نیپال، امریکہ، برطانیہ، کینیڈا،مصر،اُردن اور دیگر پانچ سے چھ ممالک میں اُردو شعبے یا پاکستانی ثقافت اور سماج کے شعبے موجود ہیں اور طالب علموں کی ایک کثیر تعداد اس زبان کو سیکھنے اور پاکستانی کلچرسے قریب تر ہونے کی تمنا رکھتی ہے۔

۔5۔دنیا میں جہاں کہیں مذہبی دہشت گردی یا تنگ نظری یا ضد اُن کے معاشروں میں دستک دیتی ہے اُنہیں ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اُردو زبان وادب سے واقف ہوں اور یہاں کے لوگوں کی اُفتاد ِطبع کو سمجھ سکیں۔

۔6۔ پاکستان دنیا کے تمام امیر ملکوں کامقروض ہے۔ اُن ملکوں کو یہ فکر لاحق رہتی ہے کہ پاکستان خود کشی نہ کرلے یا خود کش حملہ آور نہ بن جائے یا قرضوں کی ادائیگی سے ہی مُکر ہی نہ جائے۔ اس لئے پاکستان کو وقتاً فوقتاً اپنے ہاں کی ثقافتی خوشبو اور تہذیبی ثمرات کی دھونی دیتے رہتے ہیں۔

۔7۔پاکستان بننے کے بعد اس حقیقت کے پیش ِ نظر کہ پاکستان کی بنیاد بننے والے سیاسی نظریے:دو قومی نظریے: کو فروغ دینے میں اُردو زبان کا بھی ایک کردار ہے۔ مسلم لیگ کے قیام (۶۰۹۱)سے تین برس پہلے (۳۰۹۱ء)انجمن ِ ترقی اُردو کا قیام عمل میں آیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسے پاکستان میں قومی زبان کا درجہ دیا گیا۔ یہ اور بات کہ مشرقی پاکستان میں رہنے والے بنگالیوں کی رائے کو خاطر میں نہ لایا گیا۔اور اُن سے وہ سلوک کیا گیا جو آج سندھیوں، بلوچوں اور سرائیکیوں سے کیا جاتا ہے۔ اس لئے ہمیں ان خطرات اور چنوتیوں کا اندازہ ہونا چاہیے۔

الف[۔جس نظریہ ئپاکستان کو فروغ دیا گیا اُس کے مطابق پاکستان ایک خواب نگر ہے جسے صرف مہاجرین نے آباد کیا۔ 14 اگست سے پہلے نہ یہ زمین تھی،نہ اس پر کوئی بسنے والے تھے اور نہ اُن کی اپنی کوئی زبانیں تھیں۔ساتھ ہی ساتھ کراچی اور حیدر آباد میں بعض مہذب لوگ تلفظ اور روزمرہ یا محاورے کی بنیاد پر اشراف اور رذیل کے مابین امتیاز کرتے رہے ہیں۔

ب۔ہر زبان کی ایک تہذیبی ٹکسال ہوتی ہے جس کا تلفظ روزمرہ اور محاورہ سند کا درجہ رکھتا ہے اور ماخذ خیال کیا جاتا ہے۔پاکستان بننے کے ایک دو عشرے کے بعد بھی یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی کہ دہلی، لکھنؤ، آگرہ،یا بدایوں،اب پاکستان میں اُردو بولنے والوں کیلئے ماضی کے تاریخی شہر ضرور ہیں مگر ٹکسال کا درجہ نہیں رکھتے۔ اس لئے اس زبان کو مزید محاورے، ضرب الامثال، روزمرہ اور ذخیرہ الفاظ اپنی ہمسایہ زبانوں سے اخذ کرنا ہوں گے۔

ج۔ ہمیں اُن ترقی پسند ادیبوں کو اہمیت دینی چاہیے جو بیشک لکھنؤ، دہلی، حیدر آباد، بھوپال،بہار یا لدھیانہ یا ہوشیار پور سے ہجرت کرکے کراچی، لاہور اور ملتان میں آئے تھے مگر انہوں نے اسی سرزمین کی مہک کو اپنا لیا اور اسی کی مٹی سے کردار تخلیق کئے، شعری استعارے بنائے۔میری مراد شوکت صدیقی، خواجہ معین الدین، خدیجہ مستور،حسن منظر،اسد محمد خان،زاہدہ حنا،، حمید اختر،کشور ناہید،فاطمہ حسن اور اسی طرح کے دیگر اہل ِ قلم سے ہے۔

اس پس ِ منظر میں کوئٹہ سے شاہ محمد مری اور سنگت کا حجرہ ایک روشن مثال ہے، جو یہ پیغام دیتا ہے کہ اُردو کے بولنے والے اگر تنگ نظر ہونگے،احساسِ برتری کا شکار ہونگے یا تازہ خیالات کی روشنی سے محروم ہونگے تو پھر یہ زبان تاریخ کے کوڑے دان،یا طاقِ نسیان پر پہنچ جائے گی اور ساتھ ہی ساتھ یہ،کہ اس زبان کو دنیا کی اعلیٰ فکری تحریکوں سے جوڑا جائے۔علوم کی کتابیں ترجمہ ہوں،ادب عالیہ ترجمہ ہو،کتاب خانے آباد ہوں اور مدرسین کی دلچسپی اس میں نہ ہو کہ مرنے کے بعد کیا ہو گا،بلکہ اس میں ہو کہ جینے  کے دوران کیا ہورہاہے اورکیا ہونا چاہیے۔

 

 

ستمبر

یکم ستمبر               یومِ پیدائش آئی۔ اے رحمان

یکم ستمبر               یومِ وفات میر عبدالرحمان بگٹی

۔5ستمبر                    یومِ وفات آزاد جمالدینی

۔8ستمبر                    یومِ پیدائش پروفیسر کرار حسین

۔9ستمبر                    یومِ وفات قاضی داد محمد

۔ 11ستمبر                 یومِ وفات جوآن المیدہ

۔ 15ستمبر                 یومِ وفات نادر کمبرانڑیں

۔ 16ستمبر                 یومِ وفات وکٹر ہارہ

۔ 19ستمبر                 یومِ وفات عبداللہ جان جمالدینی

۔  20ستمبر                یومِ پیدائش محمد حسین عنقا

۔ 27ستمبر                 یومِ وفات قادر بخش نظامانڑیں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے