ان چار ادوار نے ہندوستان کے تہذیبی سلسلوں کو فطری انداز سے ایک ہی لڑی میں پروئے رکھا، بدھ ازم، ہندوستان میں مشترک ”قدر“ ایک ”نمانتا‘ اور صوفیانہ طرز احساس ہے جس نے ہندوستان کو کئی صدیوں تک ایک توانا تہذیب میں جوڑے رکھا۔ یہاں پرایک مستحکم اور مضبوط معاشرہ تھا۔ اس کے لوگ شریف، باوضع اور ان کی خوشیاں غمیاں یکساں تھیں۔ ان کے رہن سہن اور تمدن کے سازوسامان مشترک تھے۔حتی کہ ان کے ناموں میں بھی مماثلتیں موجود تھیں۔ فن تعمیر اور عبادت گاہوں کے درودیوار اور ادب آداب ایک دوسرے سے خاصی حد تک ملتے جلتے تھے۔ دھرتی سے محبت یہاں کے لوگوں کا ایمان تھا۔ زبان و ادب، ریتیں روایتیں سانجھیاں تھیں۔ مراد یہ ہے کہ ان کا سیاسی، سماجی، تہذیبی، اور مسلکی جذبات ایک دوجھے کے لیے کسی بھی سطح پر ٹکراؤ کا باعث نہ تھے۔

اس شانت اور ٹھہری ہوئی تہذیب میں جونہی اہل یورپ کا عمل دخل شروع ہوا تو ہندوستانی تہذیب کی باطنی بنیادیں ہلنے لگیں۔ مغل بادشاہ عیش کے بادشاہ تھے، وہ روح عصر کو نہ سمجھ سکے اور سفید چمڑی والوں کی چالوں سے بے خبرشاعری اور موسیقی پر سر ہی دھنستے رہے اور صدیو ں کو محیط تہذیب اور طرز سیاست آہستہ آہستہ فرسودہ اور ماضی کا حوالہ بننے لگی۔ایک طرف جمود زدہ ماحول تھا تو دوسری طرف تیز طرار، فعال اور تازہ دم پوری مغربی سیاسی چالیں اور معیشت و تجارت کے نئے نویلے فلسفے، انھوں نے سترہویں صدی کے نصف آخر سے1857ء تک خود کو ہر جگہ مستحکم کر لیا اور ہندوستان کے منجمد اور غیر فعال اداروں پر اپنے سفاک پنجے گاڑھ دیے۔ا یسے میں ہندوستانی حکمران، اشرافیہ اور دیگر مقتدر طبقے ایک عجیب طرح کے مخمصے کا شکار ہوگئے۔

انہی ذہنی تضادات کو سمجھنے کے لیے ہندوستان میں قائم ہونے والے ادارے”دیو بند“ دارلعلوم، علی گڑھ کالج، اودھ پنچ (اخبار) اکبر الہٰ آبادی کی شاعری، سر سید احمد خان اور اس کے قریبی لوگوں کی تحریریں، کتب اور دیگر تخلیقات کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ ایک عجیب کش مکش تھی۔ دراصل یہ ایک ایسا مخمصہ تھا جو تہذیب کی وفات پر رونما ہوا کرتا ہے۔ ایک افراتفری تھی، میدان حشر کے مصداق۔ صدیوں پر پھیلی ہندوستانی تہذیب پر جب مغربی تہذیب نے یلغار کی تو ان کی اپنی شناخت معدوم ہو گئی۔ تمام سوچنے والے اذہان اپنے طور پر اپنا فلسفہ بیان کر رہے تھے۔ کچھ یورپی تہذیب اور جدید علوم کے داعی تھے تو کچھ اپنے ماضی کے مجاوربنے بیٹھے تھے۔ وہ ]جو آج تک بھی موجود ہے[ ایک ”عصر بے چہرہ“ کی صورت اپنا آپ دکھا رہا تھا اس نے جس”قدر“ کو سب سے پہلے پامال کیا وہ یہاں کے بسنے والوں کی تہذیبی شناخت تھی۔

۔ 1857ء سے1947ء تک پوری صدی خوف ناک حد تک شکست و ریخت کا شکار رہی۔ اس صدی میں مغربی استعمار کو بھی کئی طرح کی مزاحمتوں کا سامنا رہاہے اور پایان کار نو آبادیاتی نظام کو اپنی بساط لپٹنا پڑی لیکن شاطر نو آبادیاتی نظا م کے کرتے دھرتوں نے منقسم ہندوستان کو مذہبی جنونیت کے حوالے کر دیا۔  ”بقول ایڈورڈ سعید جب کوئی تہذیب، ثقافت اور سیاسی جماعت شناخت کی نرگسیت کے مرض میں مبتلا ہوجائے تو یہ اس کی تباہی کا پیش خیمہ ہے کیونکہ اس کا سفر رک جاتا ہے“۔پاکستان کی ریاست نے آغاز ہی سے اپنی کچھ ایسی ہی پالیسیاں بنائیں کہ یہاں کے لوگوں کی جڑت اپنی تاریخ، دھرتی، تہذیب، ثقافت اور اپنے لوگوں سے نہ بنی۔اس کی مثال یہ دیکھ لیجیے کہ آہستہ آہستہ یہاں پر منائے جانے والے مقامی اور ثقافتی تہوار معدوم ہوتے گئے ہیں۔ آثار قدیمہ کو گرا کر ہاؤسنگ کالونیاں بنا دی گئی ہیں۔ تاریخی مقامات، بستیوں، شہروں کے پرانے نام بدل دیے گئے ہیں تاکہ لوگ یکسر طور پر اپنے ماضی سے کٹ جائیں۔ یہ سب شناختی بحران کی وجہ ہے کیونکہ قومیں اپنی روایات، تاریخ، تہذیب اور ثقافت سے پہچانی جاتی ہیں۔ اس صورت حال سے بڑے قومی المیوں نے جنم لیا ہے مثلاً ابھی تک ہمار ا طرز سیاست جمہوری یا پارلیمانی کی بجائے آمریت یا مطلق العنانیت کی خواہش سے جڑا ہے۔ ہم جابر، ظالم اور آمر کے خلاف مزاحمت کرنے کی صلاحیت سے عاری ہیں۔ گزشتہ برس ترکی کے لوگوں نے جس طرح جمہوری حکومت کو بچانے کے لیے مزاحمت کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کی تھیں۔ ہمارے یہاں ایسے جذبے کا فقدان ہے۔ ہمارے علماء اور سکالرز نے ابھی تک پس ماندگی اور رجعت پسندی کے اسباب کو مابعد الطبیعاتی دنیا میں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔جس سے قوم منطقی ہونے کی بجائے رومان پرور تخیل کی دنیا میں رہنے کی عادی ہو چکی۔شخصیت پرستی نے اسی سوچ سے جنم لیا ہے۔ جس کی بدولت ہم نہ حقیقت پسند ہیں اور نہ ہی معقولیت پسند؛ صرف ماضی پرست بن کر رہ گئے ہیں اورہمارے ذہن میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے کہ ہمار ا گزشتہ کل آنے والے کل سے بہتر تھا۔ایسی قدامت پرستی ”روح عصر“ کا شعورنہیں دے سکتی جب کہ عصری تقاضوں کی تفہیم ہی ترقی اور باوقار بننے کی واضح دلیل ہے۔”شناختی بحران“ کا ایک منطقی نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اس کے زیر اثر بسنے والے لوگ ثنویت کا شکار ہو جاتے ہیں اور دو عملی کے راستے پر گامزن رہتے ہیں۔ان کی دہری شخصیت انھیں ہر سطح پر قول اور فعل کے تضاد میں مبتلا رکھتی ہے۔ اس کی اساسی وجہ یہ ہے کہ راسخ العقیدگی اور روح عصر میں فاصلے بڑھ جاتے ہیں اور وقت کے دھارے میں ٹامک ٹوٹیے مارنے والے یہ بے چہرہ لوگ کوئی ڈھنگ کا فیصلہ ہی نہیں کر پاتے۔ آج ہم اسی مسلے کا شکار ہیں۔ ہم سب خود غرضی، مفاد پرستی اور موقع پرستی میں بسنے والے لوگ ہیں۔

اس تناظر میں ہماری ریاست، نصاب، اہل سیاست اور دیگر ادارے ذمہ دار ہیں۔ جب ریاست اپنے لوگوں کو تحفظ اور حقوق دینے میں ناکام ہو جائے، نصاب میں اپنی تاریخ، تہذیب اور ثقافت کو تعلیمی حکمتوں سے نہ پڑھایا جائے اور اہل سیاست مستحکم سیاسی نظام کو مروج کرنے میں ناکام ہو جائیں اور نوجوان نسل کا مستقبل بے یقینی کا شکار ہو اور ریاستی ادارے ڈلیورکرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو جائیں اور تعلیم جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی بجائے طبقاتی حوالوں سے دی جارہی ہو تو پھر لوگوں کی جڑت اور عقیدت اپنے ملک، اپنی دھرتی اور اپنے لوگوں سے نہ بنے تو حیران نہیں ہونا چاہیے۔ اسی سر زمین پر جب مختلف مسالک، دھرم، مذاہب اور کثیرالسان بولنے والے لوگ بستے ہوں مگر اہم اور متبرک صرف دو چار ہوں اور باقی دھتکارے ہوئے تو شناخت کے مسائل تو ضرور پیدا ہو ں گے۔ شناخت انسان کی فطرت کا بنیادی تقاضا ہے۔ خود کو منوانا اور اپنی ذات کا احترام کراناہمیشہ سے انسان کا ”کریز“ رہا ہے۔مگر ملک خداداد میں ذات پات اور دین دھرم کے اتنے تضادات موجود ہیں کہ ملک کی کثیر آبادی خود کو یہاں کے متنوع نظام ہائے زندگی کا حصہ ہی نہیں سمجھتی۔ پاکستان بنے پون صدی ہونے کو ہے ابھی تک ملک کی چھوٹی قومیتوں کو اسٹیبلشمنٹ کے رحم و کرم پر کس نے چھوڑرکھا ہے یقیناً اس کے پیچھے وہ طرزاحساس کار فرما ہے جو کسی انجانے خوف کا شکار ہے کہ چھوٹی قومیتوں کو حقوق دینے، مقامی زبانوں کا احترام کرنے اور اقلیتوں کے اعتراف کرنے میں کہیں کسی کے مفادات کو زک تو نہیں پہنچے گی۔ یہ سب کیوں ہے؟۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قومی سطح پر کوئی ایسی پہچان یا شناخت نہیں ہے جو ہمیں رواداری کا ماحول دے سکے اور متوازن معاشرے کی بنیاد استوار ہو سکے۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو آج پاکستان کی قومی زبانوں میں تخلیق ہونے والی شعریات اور ادبیات ”مابعد نو آبادیاتی“ مطالعے کی طرف راغب کر رہی ہیں۔ مقامی ثقافتوں، کرداروں اور اپنی دھرتی کی طرف مراجعت کا درس، دراصل اس بیگانگی اور اجنبیت سے محفوظ رکھنے کا درس ہے جو شناختی بحران کے بموجب آج کے اہل پاکستان کا مقدر بنا ہے۔ المیہ یہ بھی بن چکا ہے کہ یہاں کے باسی اپنی اصل شناخت کو سمجھنے کے لیے تیا ر بھی نہیں ہیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے