جیکب آباد 11/09/1960

قِبلا شاہ صاحب!۔

 

کافی وقت سے یہ دستور بنایا ہے کہ کسی بھی دنیاوی مسئلے پہ کچھ کہنا ہو تو آپ کو کہہ دیتا ہوں۔

یاد داشت پہ زور دو گے تو یہ روزِروشن کی طرح نظر آئے گی کہ بار ہا مشکل سے مشکل مسلا ایسے حل کیے ہیں۔ سطحی نگاہوں سے دیکھو گے میرا آپ سے کہنے کے مقصد کا کوئی خاص واسطہ نظر نہیں آئے گا۔ مگر ہوا ایسے کہ آپ راضی ہوئے تو معاملہ حل ہوا۔ بعض مسائل میں آپ نے انکار نہیں چھوڑا تو ان میں کامیابی نہیں ہوئی۔ اگر چہ سالوں بعد میرا ہی پیش کردہ معاملہ صاف اور سچا نظر آیا۔ اب کیا لکھوں اور کیا بولوں؟ اس موضوع پر بار ہا لکھتا آیا ہوں۔ اس وقت جو مسئلہ لکھتا ہوں وہ آپ کے گھومنے پھرنے کے متعلق ہے۔ آپ گھومو پھرو یہ کام یکدم ہو۔ اس میں دیرنہ ہو اپنے خیال سے نہیں تو مجھے خوش رکھنے کی خیال سے ایسا کرو۔ مجھے سخت تکلیف پہنچتی ہے۔ آپ سے کیسا قریبی واسطہ ہے۔ صبر اور ضبط کی حدود مقدر ہیں۔

بدن کو تندرست رکھنے کے سبھی انتظام کرو۔۔۔ اپنی تندرستی کو ایک قسم کی امانت سمجھو۔

کچھ وقت پہلے ”اے جی جی Agent of Governor General کے تار کا پتہ ہی ”بلوچستان“ ہوتا تھا۔ اس کے کاروں پر بھی ”بلوچستان“ لکھا ہوتا تھا۔ سندھ اس وقت فی زمانہ نام ہی ایک آدمی کا ہے وہ ہے ”جی ایم سید“!۔

آپ کے عملی پروگرام سے ظاہر ہے میں قطعاً شامل نہیں ہوں۔ اگر شامل ہوتا تو ایسے نہ ہوتا جو ہورہا ہے۔ تدبر اور حکمتِ عملی مولانا سندھی کے زبانی سن کر اسے گرہ دے دی ہے۔شکست کھانا اچھا عمل نہیں ہے۔ تا وقتیکہ دوسرا کوئی راستہ ہی باقی نہ رہے۔

آپ کے پاس لانے کے لیے دل میں بڑے مطالبے ہیں۔ مگر وہ قبول نہیں کرسکتا ہوں۔ اس لیے  کہ آپ کے گھومنے پھرنے کے پروگرام کی بند ش کو طبعیت پسند نہیں کرسکتا ہے۔

لفظ ”بندش“ بھی قلم سے نہیں نکل سکتا ہے۔ ”سیاست“ خود آپ کی زندگی کا ایک پہلو ہے۔ اصل اور بنیادی طور سندھی کے سرویچ اور بہادر سید ہو۔ ”سیدیت“ ہر چیز پر غالب ہے۔ ضد بھی اس میں آجاتا ہے۔ ضد شیطانی معنیٰ میں نہ خداکے جھکاؤ ایک طرف!!۔

آپ نے دیکھا کہ کسی بھی اختلاف کو آپ سے تعلق توڑنے کی اجازت نہیں دی۔ آپ سے کیسے اختلاف؟ دیکھا خود آپ کے بارے میں جو بندے کا خیال مبارک پہلے ہی ملاقات میں قائم ہوا تھا انت صورت جا کے وہی ٹھہرا۔ آپ کا پہلا والا کہنا کرناسب بیکار گئے!  اختلاف کے سب پہاڑ ریزہ ہوکر بہہ گئے!! آکے وہیں ٹھہرے، جہاں ایک غریب دیہاتی ”مرید قسم“ کے کھوسہ،، نے عرض کیا تھا!!۔

شادم از زندگی ِ خویش کہ کارے کردم

بندہ محمد امین کھوسہ

***

 

انٹرواہ ریلوے اسٹیشن جیکب آباد

10/09/1960

کر مفائے بندہ شاہ صاحب!۔

صبح کی نمازکی دعا میں آپ کے ایک دوسرے عزیز دوست کا خیال آیا۔

آپ سے کہنا ہے کہ آپ اپنے گھومنے پھرنے کا فوراً بندوبست کرو۔ بندہ کی طبع پہ گرانی کا احساس ہے۔ آپ محبت پرست آدمی ہیں۔ آپ پہ کوئی بھی سختی بندہ کو تکلیف دیتی ہے۔ خوامخواہ مصلحت بین نہیں ہوں۔ مولانا سندھی کا مجاہدانہ صبراور خاموشی سامنے آجاتی ہے۔ ازراہِ بندہ نوازی کوئی صورت نکالو۔ آپ ہر حالت کو قابو میں رکھنے کا راز جانتے ہو۔ بندہ مزید نصیحت نہیں کرتا ہے۔ صرف توجہ دلاتا ہوں۔ اللہ کی طرف رجوع کرو۔ مجاہدہ، عبادتیں اور ریاضتیں سب سیّد لفظ میں سمائے ہوئے ہیں۔ بہادری، بے پرواہی، استغنیٰ، قیصرو کسریٰ کو ٹھوکر سے اڑانے کے سب معنی لفظ سید میں درج ہیں۔ اس وقت سیاسی ”سند ھ سن“ میں ہے۔

بدنی حفاظت آپ پر فرض عین ہے۔ بندہ آپ کا سب سے قریب ترین آدمی ہے۔  ہر حیلا بہانا ہر محبت آپ کو باز آنے کے لیے آزمایا۔ کیا کیا نہ آپ کو بولا۔ میرے خیال میں کسی دوسرے نے آپ سے اتنی گستاخی نہ کی ہوگی جتنی بندہ نے کی ہے۔ روزانہ گھنٹوں کے گھنٹوں منت و عاجزی اور لڑائی جھگڑے کیے۔ دوسرے خوشامدی کنا رہ کش ہوئے کوئی کہاں تو کوئی کہاں؟ سید کا جسم سندھ کو کام دے رہا ہے بھی خود اپنے لیے اور ہمارے لیے کوئی راستہ نکالو۔!

محمد امین کھوسہ

***

 

انٹرواہ ریلوے اسٹیشن 21/09/1960

ابلا شاہ صاحب!۔

آپ سندھ کا سرمایا اور بے بہا خزانہ ہیں۔ خود انصاف کرو میں نے اِس خزانے کو بچانے کے لیے کتنے جتن کیے۔ دوسروں کو میری کوشش کا کیا معلوم! موجودہ زمانے میں سندھ ایک ہی آدمی ہے اور وہ آپ ہیں۔ اسی آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے وہ کچھ کیا جو میرے بس میں تھا۔ لیگ میں آکر بھی آپ کو بچانے کی جہاد کی۔شکار پور کے الیکشن میں سندھ کی حفاظت کے لیے شیخ صاحب کو لے کر پہنچا۔ شیخ صاحب سے بھی میری الفت کا آپ کو معلوم ہے۔ یہ اُلفت سندھ کے کام آیا لیکن وقت گزرنے کے بعد!

آپ بیخود ہونے والے آدمی ہیں۔ جسے اب بیخودی والا عالم میں ہیں۔

آزاد خیال نہ ہوں۔ کربلا آزاد خیالوں کا کارنامہ تھا۔ نبی کے اولاد ہوئے تو کیا ہوا وقت کی حکومت کے دشمن ہو! حضرت اِمام کے مقابلے میں آکر اپنے دونوں جہاں سیاہ کیے۔ اور اسلام پر ایسا وار کیا جو ابھی تک اس زخم کا اثر باقی ہے۔

ایک مقرر راہ ایک معین فکر اور عمل، وہ ہے اِسلام

احوال دیتے رہو آپ کے خطوط محض خطوط نہیں ہیں۔ ہمارے تعلقات نے بھی کئی طوفان اور کئی مقابلے دیکھے۔ زیارت کے لیے بیتاب ہوں موجودہ حالت قابل قبول نہیں ہے۔ آپ کو اس حالت میں دیکھ کر دل کی برداشت اور صبر جواب دے دیتا ہے۔

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت

درد سے بھر نہ آئے کیوں

ضبط اور صبر کے حدود کو پھلانگنا بھی انسانی خاصہ ہے۔ مجھے ان آزمائشوں میں نہ ڈال میرے لیے دعا کرتے رہا کرو۔

محمد امین کھوسہ

***

30/09/1960

قبلا شاہ صاحب!۔

محبت آمیز خط ملا۔آنکلوں گا

آپ سے ایسا رشتہ جوڑ رکھا ہے۔ جو دوری ہوتا ہی نہیں ہے۔ کئی اختلافات کے ہوتے ہوئے بھی آپ سے تعلق نہیں ٹوٹا۔

ہماری زندگی رواجی زندگی نہیں رہی ہے ۔ افسوس آپ نے وقتی اور ہنگامی جوش کی وجہ سے بند ہ کے بنیادی مشورے نہ سُنے۔ تاریخ میں یہ باتیں آئیں یا نہ آئیں۔مگر میں نے صاف اور واضح نمونے میں محبت اور دوستی کا واسطہ دے کر گھنٹوں کے گھنٹے سارا سارا دن مہینوں کے مہینے آپ سے مغز ماری کی۔ میرے لیے کوئی بھی بات اس لحاظ سے تعجب انگیز نہیں ہے۔ ایک نہیں دوسری طرح اس پر رائے کا اظہار کر چکا ہوں۔ رہی  مجذوبیت، میری مجذوبیت ایک شخصی مجذوبیت ہوگی۔ آپ کی مجذوبیت نے تو ستیاناس کردیا۔ نہ رہا بانس نہ بجے بانسری۔ نہ رہے سندھ نہ سندھ کے ہندو، نہ سندھ کے مسلمان، سب فنا!

حُسن اور عشق کا مسئلہ چھیڑا ہے۔ سندھ ہے ہی حسن وعشق کی وادی  سو ہنے صوفی، کامل فقیر چپے چپے پہ موجودرہے ہیں۔ حسن اور رعنائی تو سندھ کا خاصا ہے۔ فقیروں کے احوال بھی لکھو۔ کافی برگزیدہ اللہ والے ہو گزرے ہیں۔ جن پر کوئی مفصل مضمون نہیں ملتا ہے۔ درگاہوں اور خانقاہوں پر صرف رسمی عقید تمندی کا اظہار ہوتا ہے۔ باقی ان در ویشوں کی اصلیت عیاّں نہیں ہوتی ہے۔ آپ قلم اٹھائیں اور لکھیں۔

اسلامی فکر اپناؤ آپ جیسے مدّبر اور قوم ساز کے لیے یہ ضروری ہے۔ باقی ظاہری لباس کیسا بھی ہو۔”دست بہ کار دِل بہ یار“ دین کی تبلیغ اپنا پیدائشی حق اور خاص ہے۔ دین کا رشتہ اگر قائم نہ ہوسکا تو پھر طاقت ہاتھ آئی تو اس کا استعمال ظاہر ”پزیری اور غروری“ ہوگا۔ سب خوبیاں دیین میں ہیں۔ مگر دین زمین اور آسمان کے درمیان مُعلق نہیں ہے۔ اور نہ ہی اپنے وہم وگمان کا نام ہے۔ دین ایک معین عقیدے اور معین راہِ عمل کے چوکھاٹ میں سمویا ہوا ہے۔ نہ یہ سیاست ہے اور نہ ہی سیاست سے ان کا واسطہ دین ہمہ گیر اور عالمگیر بھی ہے۔ اسی کے جائز تقاضا ؤں کو آپ جیسا مسلمانوں کے ایک بڑے گروہ کا سرغنہ خود باعمل سخت کیش جان باز مجاہد ہی جان سکتا ہے۔

حیات ِ انسانی سیاست کا دوسرا نام ہے۔ مگر رواجی حکومت والی نہیں۔ حکومتیں بدلتی رہی ہیں۔ دینی سیاست جو حیاتِ انسانیت پر اثر انگیز ہے۔ وہ دائم و قائم رہے گی۔ آپ جیسے اثر انگیز آدمی ملکوں اور قوموں میں جزوی پیدا ہوئے اور ہیں، جب انہوں نے اپنے مجھ جیسے دوستوں کا کہنا نہیں مانا      تو ان کے نتائج ہمیشہ ایسے ہی نکلے ہیں۔ آپ کی ہمت، استقلال اور مردانگی میں کیا شک ہے۔ بندہ کبھی بھی کافی وقت کے پروگراموں کے اصولوں کو چھوڑ کر طریقہ کار سے متفق نہیں رہا ہے۔ انہی نقصان دہ طریقہ کاروں کے ظاہری نتائج وقتی شکست میں ہی ظاہر ہوتے ہیں۔

میری اور آپ کی گفتگو قوم سازی سے متعلق تھی۔ سندھ اسمبلی میں جب آپ نے بیوقوف ہندوؤں کو سندھ سے نکالنے کی دھمکی دی تب بندے اکیلے آدمی نے وہاں بولا کہ ”تاریخ کے ورق الٹ رہے ہیں“

میں خطرناک عملی آدمی ہوں مولانا عبیداللہ سندھی کا سوزو گداز ورثے میں ملا ہے۔ ایک تِل جتنا فرق بھی میری اصل بات میں نہیں آیا ہے۔ افسوس تو یہ ہے جو بار ہا تجربات کے بعد بھی آپ نے یہ ضروری نہیں سمجھا کہ بندہ کی راہ اختیار کی جائے۔

میں عافیت پسند آدمی نہیں ہوں۔ مالی حالات زمانے میں رہنے والوں کی درست رہتے ہیں۔ میں عیب اور ثواب کے ساتھ ایک مقصد اور خیال کا ترجمان رہا ہوں وقتی ترامیم ہوتی رہتی ہیں۔ مگر مدعا اور مقصد وہی ہوتا ایسے لوگ یا ایسے رہتے ہیں جسے آپ رہتے ہو یا ایسے رہتے ہیں جیسے پھانسی کے پھندے پہ گمنامی میں بھوک اور پیاس سے مرتے ہیں۔ یا پھر ظاہری کامرانیاں بھی پسند کرتے ہیں۔ مگر ہر حالت میں انہوں نے اپنے اصول کے انجام سے منہ نہیں موڑا۔

یہ تپش اور حرارت بھی حُسن کی ایک تجلی اور کرن ہے۔ بدصورت اور بُری چیز سے نفرت، حسن والی اور موزوں چیز کی طلب ہر آدمی کے واسطے بھوک اور مفلسی کہاں؟ ہر آدمی کے لیے ویرانا، جنگل اور پہاڑ کہاں! ہر آدمی کے واسطے پنج پیر شکار پور میں شہادت کا جامہ پہن کر آرام کرنا کہاں؟ آپ خود ایک زندہ جاوید شعلہ ہیں۔ جی ایم سیّد آپ ہر وقت پیدا نہیں ہوتے ہیں۔

اپنی زندگی کے متعلق بھی لکھو۔ عجیب تاریخ ہے۔ یہ بھی ذاتی دوستیاں اور پھر ہنگامہ خیز ملکی معاملہ! جیسا بھی جلد شائع ہو مگر تصویر کا ایک رخ پیش نہ کرو۔ لیگ اور جناح کو سندھ میں میری زبردست مخالفت کے ہوتے ہوئے آپ لے آئے۔ ایک ایک انچ پر مقابلہ کیا سب ایک طرف، سیٹھ ہارون، گزدر، شیخ صاحب، کھوڑو، راشدی مطلب سوائے بندہ کے سب ایک طرف، ایک آدمی جتنا کرسکتا ہے۔ سو کیا ہے۔ شہیدوں کا لہو ہند کو بچانے کے لیے دیا یہاں بھی عشق ہے۔۔۔۔ یہ خط نہیں ہوا ایک دستاویز مرتب ہوا۔

در بزم تومے خیز د افسانہ زافسانہ!۔

محمد امین کھوسہ

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے