کس رخِ زیبا کی رعنائی ہے روئے ما رواں

اک روانی آب جیسی ہے تہہِ صحرا رواں

 

کس شرابِ کہن کا، کس مے کدے کا در کھلا

خانہءِ ویران سے باہر ہے اک رستہ رواں

 

اس گلِ رنگین و مہ صورت کی آمد کے لیے

خوشبوئیں ساکت ہیں اور ہوتا ہے آئینہ رواں

 

اس گلِ غم کے لیے ہی در ہواؤں کا کھلا

جنبشِ پاء سے اسی کے ہوگئے دریا رواں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے