کئی تقاضے تھے قلب و نظر کے بُھول گیا
میں زندگی میں بس اک عشق کر کے بھول گیا
ہوا کی سانس بھی پہروں رُکی رہی کل رات
چراغ میں بھی ہتھیلی پہ دھر کے بھول گیا
کہاں تلاش کروں گمشدہ محبت کو
میں یہ خزانہ کہیں دفن کر کے بُھول گیا
مجھے خبر تھی کہ اب نیند پھر نہ آئے گی
میں گہرے خواب میں اک شب اُتر کے بُھول گیا
وہ چھت جو سر پہ تھی اب تک اسے بُھلا نہ سکا
تو پھر میں کیوں درو دیوار گھر کے بُھول گیا
اگر چہ شہد گُھلا تھا کسی کی باتوں میں
مگر میں زہر کے دو گھونٹ بھر کے بُھول گیا

 

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے