وہ اک مجسم خیال ہے

ایک یا قوتی تخیل

جو آنکھ کے جھرنے سے بہتا ہوا

زمردیں اخساروں پہ ٹک گیا

لفظوں کی کرنیں لب لالعیں کا

طواف کرتی ہیں

بھیگی پلکوں پہ ستاروں کا ہجوم ہے

وہ جو اندھیرے میں ٹھوکر کھانے سے بچا سکتا تھا

اُس نے اپنے لاجوردی سینے میں

رنگوں کو حیران نہیں ہونے دیا

چکور کے ٹوٹے ہوئے پروں میں

چاندنی آج بھی اپنا وجود تلاش کرتی ہے

تیزے کی انی جیسی

آفتابی کرنوں نے سورج مکھی سے وفا نبھائی

رات کی رانی نے رات سے پریت کی جوت جگائی

پھر تم کیسے دیوتا ہو

دل کے سنگھاسن پہ کسی مورتی کی طرح

ایستادہ ہو

مگر پتھر یلے یاقوتی لب خاموش ہیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے