وہ کہتی ہے ہر شخص خبیث ہے۔ اسی لیے ہر کسی کا گلہ کرتے ہوئے وہ ہر انسان کو رد کرتی ہے۔ جب اُس کے معیار پر کوئی پورا نہیں اُترتا تو پھر دُکھی ہو کر زور زور سے چلاتی ہے، کوستی ہے اُسے بھی اور خود کو بھی اور ہر دم محبت سے شاکی رہتی ہے۔ میں اُس کا غصہ دیکھ کر ہولے سے ہنس دیتی ہوں۔

                آج پھر اُس نے سسکی بھری، نم آلود آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور ہونٹوں پر زہر خند سی مسکراہٹ بھر کر کہا۔

                یار! عشق تو کسی بھی عمر میں اور کسی کے بھی ساتھ اور کسی بھی جگہ ہوسکتا ہے  نا؟“۔اور تمہیں میں نے بتایا تھا کہ میں نے اپنی پوری زندگی میں تین عشق کیے“۔

                اب تمہیں کیا ہوا؟ تمہاری آنکھوں میں میرے لیے تمسخرکیوں ہے؟۔ مجھے پتہ ہے تمہاری سوچ تخریبانہ ہے۔ تم نے تو کبھی عشق و شق نہیں کیا ہوگا“۔

                 میں نے اُس کے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے نرمی سے اُس کا ہاتھ دبایا اور سمجھانے والے انداز میں کہا۔

                دیکھو میری گُڑیا۔ میری پیاری۔ تُم جسے عشق کہہ رہی ہو وہ عشق نہیں، محبت ہے اور محبت ہم اپنی زندگی میں بے شمار مرتبہ کرتے ہیں اور اس کی تکالیف بھی برداشت کرتے ہیں، دُکھ بھی اٹھاتے ہیں۔مگر میری جان! عشق تو صرف ایک مرتبہ بس ایک مرتبہ ہی ہوتا ہے۔ اور دیکھو! عشق میں آنسو نہیں بہاتے۔ درد ہوتا ہے مگر محسوس نہیں کرتے۔ اپنا آپ تو نظر ہی نہیں آتا۔ ایک عشق ہی اِس طرح خاکستر کردیتا ہے کہ دوسرے کا تو تصور ہی ناممکن ہے۔ عشق میں تو اپنی ذات بھی غیر ہو جاتی ہے“۔

                 اُس نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور کہا۔۔ ”تُم پاگل ہو۔ تُم کتنی پرسکون ہو۔ اِسی لیے مجھے زہر لگتی ہو“۔

                 ایک جھٹکے سے اُس نے اپنا بیگ شولڈر پر ڈالا، بال جھٹکے اور ٹھک ٹھک کرتی چلی گئی۔ مجھے پتہ تھا ٹھیک چار گھنٹوں کے بعد یہ دوبارہ کوئی اور مسئلہ لے کر منہ بسورے میرے پاس آن کھڑی ہوگی۔ اسی لیے میں نے پرواہ نہ کی۔ مگر اُس کے جانے کے بعد اپنے خیال کو روک نہ سکی۔ اپنی ہی باتوں کی باز گشت محسوس کرتی رہی۔

                میں نے تمہارے لیے جو محسوس کیا وہ جذبہ کیا ہے آج تیس سال گزر گئے کوئی ایک دن کوئی ایک لمحہ تمہارے خیال سے عاری نہیں رہا۔ تمہارے لیے جب میں نے کچھ محسوس کیا وہ عمر کیا محسوس کرنے کی تھی؟۔میں اتنی کم عمر تھی کہ شاید ابھی کلاس ٹو میں پڑھ رہی تھی  اور تم میٹرک کے طالبعلم تھے۔ ہم کوئٹہ سے لاہور آئے ہوئے تھے اور واپسی کے لیے تُم باقی کزنز اور آنٹی کے ساتھ ہمیں پلیٹ فارم پر سی آف کرنے آئے تھے۔ میں ابو جانی کی انگلی پکڑے پلیٹ فارم پر ٹہل رہی تھی۔ گاڑی آنے میں ابھی وقت تھاکہ بھائی سے باتیں کرتے ہوئے تُم نے ایک قہقہہ لگایا تھا۔ میں نے مُڑ کر ایسے ہی تمہیں دیکھا تھا۔ تُم بے ساختہ کسی بات پر ہنس رہے تھے اور تمہاری آنکھیں ستاروں کی مانند۔ چمک رہی تھیں۔ خوبصورت لباس میں تُم کتنے شاندار کتنے پروقار لگ رہے تھے  اور ہنستے ہوئے تمہارا چہرہ کچھ اوپر اٹھا ہوا تھا۔ایک خوبصورت مجسمے کی مانند دھوپ تُم پر اس طرح پڑ رہی تھی کہ تمہارے قدرے بڑھے ہوئے بالوں میں سنہری چمک پیدا ہورہی تھی۔ مجھے آج بھی یاد ہے تمہیں دیکھ کر مجھے بس کڈبری چاکلیٹ کاخیال آیا تھا۔ میں تمہیں بس دیکھتی جارہی تھی اور ابو انگلی تھامے ہوئے ہولے ہولے چلتے ہوئے گویا مجھے گھسیٹ رہے تھے۔ بس وہ ایک لمحہ ہی تھا۔ اس کے بعد کتنے ماہ و سال گزر گئے۔ زندگی نے کیا کیا نہ موڑ لیے۔ جب تمہاری شادی کا وقت آیا تو تمام خاندان والوں کی نظر مجھ پر پڑی۔ تم تمام فیملی میں سب سے ہینڈ سم نوجوان تھے۔ مگر پتہ نہیں ایک ایک پل تمہارے نام کرنے والی میں دل سے خوش نہ ہوسکی۔

                 امی جان نے بتایا کہ ہم جہاں تمہاری شادی کرنا چاہ رہے ہیں تم سنو گی تو خوش ہوجاؤ گی۔ مگر میرے چہرے پر کوئی خوشی نہ دیکھ کر وہ حیرت زدہ بھی ہوئیں۔میں اُنہیں کیسے بتاتی کہ میں تو خود کو اُس کے قابل بھی نہیں سمجھتی۔ اپالو کے لیے تو صرف وینس ہی ہوسکتی ہے۔ جس کی پوجا کی جائے اُس کے ساتھ زندگی کیسے گزاری جاسکتی ہے۔ اور ابھی یہ تعلق زیر بحث ہی تھا کہ ایک حادثے کا شکار ہو کہ تم ہمیشہ کے لیے نظروں سے اَوجھل ہوگئے۔ لیکن کیا فرق پڑتا ہے؟۔ میری شادی ہوئی، بچے پیدا ہوئے۔ میں ہنستی کھلتی بھر پور زندگی گزارتی ہوئی آج اُدھیر عمر میں داخل ہوچکی ہوں۔ مگر۔ مجھے پتہ ہے یہ دل اُس حادثے کے بعد اتنا وزنی ہوگیا کہ سانس لینا دوبھر ہوگیا۔ بظاہر نارمل مگر اندر سے میں ہر وقت ہانپتی ہوں۔ اُس کا نام میں نے کبھی کسی کے سامنے نہیں لیا مگر خدا کے ذکر کے ساتھ ساتھ اندر کہیں اُس کی یاد سر اٹھائے کھڑی رہتی ہے۔ پلیٹ فارم والا قہقہہ آج بھی اُسی طرح تروتازہ ہے۔ اُس کی شخصیت تیس سال بعد بھی اتنی ہی روشن اور چکا چوند ہے۔ آج بھی ہروقت آنکھوں میں نمی کا احساس ہوتا ہے۔ کئی لوگ جو میرے بہت قریب ہیں پوچھتے ہیں۔۔۔ تمہاری آنکھوں میں اُداسی کیوں ہے؟ ہر طرح سے تو تم خوش ہو۔ تمہاری زندگی بھر پور گزر رہی ہے۔ پھر بھی کچھ تو ہے ۔۔ میں کیا بتاؤں؟۔ مجھے خود پتہ نہیں کہ تمہارے بغیر اس دنیا میں جی لگا ہی نہیں۔ میں نے کبھی خود کو تمہارے قابل نہ سمجھا اس لیے ملن کا تو کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔ میرے انکار سے جہاں میری فیملی کو اچھنبا ہوا تھا وہاں تم نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ صرف یہ کہا تھا ”مان جائے گی اُسے وقت دو“ لیکن مجھے تو بس یہ اچھا لگتا تھا کہ اس دنیا میں جہاں میں سانس لے رہی ہوں ان فضاؤں میں تمہارے سانس کی مہک بھی رچی بسی ہے۔ اور تمہارے جانے کے بعد تم کچھ اس طرح سے دل، دماغ، سوچ اور فکر میں شامل ہوگئے کہ جس شخص کو دیکھتی ہوں کسی کی آنکھیں تم جیسی لگتی ہیں کسی کے بال تمہارے بالوں کا شیڈ لیے ہوتے ہیں، کوئی تمہاری طرح بات کرتا ہے۔کسی کی آنکھوں میں تمہاری طرح شرارت چھلکتی ہے۔ اس لیے کسی انسان سے آج تک نفرت کر ہی نہیں سکی۔ تُم جو کہتی ہو نا تمہارے اندر اتنا پیار کہاں سے آگیا کہ تمہیں کسی کی کوئی بات بری لگی ہی نہیں۔۔ اس کی وجہ یہی ہے ہر شخص میں تمہارا کوئی نہ کوئی عکس دکھائی دے جاتا ہے اور وہ شخص میرے لیے معتبرہوجاتا ہے۔ اس لیے مجھے کسی میں کوئی برائی دکھائی ہی نہیں دیتی۔ ابھی کل ہی ایک شاعر مجھے ملنے آیا اور جاتے جاتے میرے لیے تحفتاً ایک شعر کہتا گیا۔

تیرا سورج کے قبیلے سے تعلق ہے کوئی

تو نے سیکھا ہے کہاں سے یہ سبھی کا ہونا

                لوگ مجھے اچھا سمجھتے ہیں اس کے پیچھے تو تم ہو اور تمہیں سوچنا آج بھی اچھا لگتا ہے۔ لیکن بس سانس لینا مشکل لگتا ہے۔ جب سانس لیتی ہوں تو دل وزنی ہوجاتا ہے۔یوں لگتا ہے سینے پر بھاری سل رکھ دی ہو۔ وہ تمہارا کتبہ بھی ہوسکتا ہے۔ میرا دل وہ مدفن ہے جہاں سے تُم نکل ہی نہیں سکتے۔ تمہارا انداز میرے دل میں ہے۔ شاید یہ عشق ہے یا پھر پتہ نہیں۔۔۔۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے