آج کی دنیا کے تقریباً ہر ملک پہ سرمایہ داروں جاگیرداروں سرداروں اور بیوروکریسی کی متحد ہ حکومت قائم ہے۔ کس پہ؟۔مزدوروں پہ، کسانوں چرواہوں ماہی گیروں اور معدنی مزدوروں پہ۔ یعنی دولتمند لوگوں کی بے دولتوں پہ حکومت ہے۔ دولت مند تعداد میں بہت کم ہوتے ہیں جبکہ بے دولت بہت بڑی اکثریت میں ہوتے ہیں۔ یعنی اقلیت اکثریت پر حکومت کرتی ہے۔ (اورسماج کا سب سے بڑا سچ یہی ہے)۔دوسری بات یہ ہے کہ یہ دولت مند حکمران لوگ مزدوری نہیں کرتے، کچھ پیداوار نہیں کرتے۔ جبکہ بے دولت اکثر یت ساری مزدوری اور ساری پیداوار کرتی ہے۔یعنی پیداوار نہ کرنے والے بے کار لوگ محنت کرنے والوں پہ حکومت کرتے ہیں (یہ سماج کا دوسرا بڑا سچ ہے)۔

اس اقلیتی اور پیداوار نہ کرنے والوں کی حکومت کو بے شمار نام دیے جاتے ہیں۔ اسے کہیں پہ بادشاہت اور خانیٹ کہتے ہیں۔ کہیں اُسے جمہوریت کا نام دیا گیا ہے، اور کہیں اس کو  ڈکٹیٹر شپ کہتے ہیں۔ نام جو بھی دیا جائے لیکن اصل بات یہ ہے کہ حکومت پیداوار نہ کرنے والے اقلیتی دولتمندوں کی ہے اور پیداوار کرنے والے اکثریتی بے دولت لوگ اُن کے محکوم ہیں۔اس لیے کسی بھی طبقاتی سماج میں آزادی اور حقوق یافتگی دونوں متضاد طبقوں کو بہ یک وقت حاصل نہیں ہوسکتیں۔

طبقاتی نظام یعنی کپٹلزم میں ہرشخص سرمایہ دار کا کماڈٹی ہے بشمول حکومت کے۔سیاستدان کماڈٹی ہیں جنہیں کپٹلسٹ خرید اور فروخت کرتے ہیں۔ قانون ساز اسمبلی ایک کماڈٹی ہے جسے کپٹلسٹوں کے ملازم لابی اِسٹ خرید و فروخت کرتے ہیں۔اسی طرح طبقاتی سماج میں عدل ایک کماڈٹی ہے، طبقاتی ہے، جانبدار ہے۔ چنانچہ بادشاہ کبھی عادل نہیں ہوتا، ڈکٹیٹر کبھی عادل نہیں ہوتا۔ بورژوا جمہوریت والے طبقاتی نظام میں عدل آفاقی نہیں طبقاتی ہوتا ہے۔تعلیمی ادارے تک سچ نہیں پڑھا تے۔ بھلا کس کپٹلسٹ ملک میں دوسری قوموں کی آزادی اور انقلاب تک پہنچنے کی تاریخ پڑھائی جاتی ہے۔ حالانکہ انسانی تاریخ بنی ہی آزادی اور انقلاب کی جدوجہد سے ہے۔ یہ تعلیمی ادارے نہیں سچ کو پوشیدہ رکھنے والے طوطا خانے ہیں۔ سرکاری محکمے یعنی، کلچر، انفارمیشن اور ہیلتھ سروسز اب محکمے نہیں رہے، یہ اب انڈسٹری بن چکے ہیں۔ ہمیں ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی بجائے اسے ایجوکیشن انڈسٹری کہنا چاہیے۔ ہمیں ”ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز“کے بجائے ڈائریکٹر ”ہیلتھ انڈسٹری“کہنا چاہیے۔ سب کچھ پیسہ والے کا، سب لوگ پیسہ والے کے لیے۔عدالت، فوج، میڈیا، ملّا، مرشد۔۔ سب کماڈٹی۔

جب ہم کہتے ہیں کہ حکومت دولت مندوں کی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ حکومت کے سارے ادارے دولت مندوں کے پاس اور ساتھ ہیں۔ اداروں میں مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ اور میڈیا آتے ہیں۔ دولت مند لوگ خواہ حکمران پارٹی میں ہوں یا اپوزیشن میں، اس حتمی انتظام کاری میں ذرا سی گڑ بڑ کو برداشت نہیں کرتے۔ اس لیے آپ نے ہمیشہ اِن کے زیرِ کنٹرول میڈیا میں عمران نواز و بلاول کا بیان سنا ہوگا کہ ”ہم سسٹم کو خطرے میں نہیں ڈالیں گے“۔ چنانچہ دولتمندوں کے بیچ شخصی، گروہی یا جماعتی جتنے بھی اختلاف ہوں، جتنی بھی دشمنیاں ہوں، وہ اپنے سسٹم کو خطرے میں نہیں ڈالتے ۔

جمہوریت گوکہ سر قبیلوی، فیوڈل، یا بادشاہت کی بہ نسبت ایک عظیم تاریخی ترقی ہے۔یہ فاشزم، اور یک نفری ڈکٹیٹر شپ سے بہت اعلیٰ نظام ہے۔ مگر ایک عالم کے بقول کپٹلزم کے تحت جمہوریت اس بات کی پابند ہے کہ یہ پابند ہی رہے، اِس کا دُم کٹا ہوا ہو، یہ نقلی اور دھوکہ باز رہے،یہ امیروں کے لیے بہشت اور غریبوں کے لیے فریب اور پھانسنے کا جال رہے“۔

انگریز کے دور میں جھانکیے تو معلوم ہوگا کہ انگریز نے سات سمندر دور سے آکر اوپری سطح سے مغل بادشاہوں کو تو بھگادیا مگر دولت مندوں کی حکمرانی میں کوئی گڑ بڑ نہیں پیدا ہونے دی۔ اس نے اپنے لیے غیر موزوں راجاؤں، نوابوں، سرداروں اور خانوں کو تو بدل ڈالا مگر اُن کی جگہ اپنے لیے کار آمد لوگ اُنہی راجوں، نوابوں،سرداروں اور خانوں ہی سے متعین کردیے۔

انگریزوں کے جانے کے بعد بھی دولت مندوں کی حکمرانی کوکوئی خطرہ پیش نہ آیا۔ وہاں ہندوستان میں جمہوریت کے نام سے برلا، ٹاٹا، ٹنڈنوں اور ٹھاکروں کی حکمرانی رہی۔اور یہاں مارشل لاؤں میں بھی جاگیرداروں،پیروں، جرنیلوں کی حکومت رہی۔

بھٹو آیا مگر دولتمندوں کی حکمرانی والے سسٹم کو کسی خطرے میں نہیں ڈالا گیا۔ ضیا اور نواز شریف اپنی بنیاد پرستی کی سختیوں کے ساتھ آئے مگر سماج کا طبقاتی ساخت وہی رہا۔ بے نظیر اور بعد کی بورژوا جمہوریت آئی، روشن فکری، پارلیمنٹ کی بالادستی،جمہوریت، بنیادی انسانی حقوق۔۔۔مگر جاگیرداری نظام سلامت ہی رہا۔ اسے چھیڑا تک نہ گیا۔ افتخار چوہدری والا سپریم کورٹ آیا مگر زرعی اصلاحات نہ ہوئے۔ سسٹم برقرار رہا۔ قانون تب بھی پیسے والا کا ہی رہا۔

اسی طرح آزادیوں بھرے یورپ میں سچ یہ ہے کہ وہاں سب باتوں کی آزادی ہے مگر بے دولتوں کو اقتدار میں جانے کی کسی بھی صورت آزادی نہیں ہے۔ پریس بولتا ہے میں آزاد ہوں، مگریہ پریس دولت مندوں کی ملکیت ہے اور اُن کی حکمرانی کے خلاف کچھ نہیں بولتا۔ یورپ کا عدلیہ کہتا ہے میں آزاد ہوں مگر یہی عدلیہ بڑی بڑی کارپوریشنوں کا ترجمان بنا بیٹھا ہے۔ اور وہاں فوج کہتی ہے کہ میں آئین کی پابندو محافظ ہوں مگر وہ غیر قانونی طور پر پیٹروانڈسٹری والوں کی طرف سے دنیا کی ہر اُس جگہ بھجوائی جاتی ہے جہاں پٹرول موجود ہے۔ ابھی عراق میں ”ویپن آف ماس ڈسٹرکشن“کے بہانے لاکھوں لوگوں کو قتل کردیا گیا۔ میڈیا نے یورپ اور امریکہ میں رائے عامہ ہموار کی کہ عراق دنیا کو تباہ کرنے والا ہے۔ مگر بعد میں پتہ چلا کہ وہ سب جھوٹ بول رہے تھے۔اُس تباہی کو عرصہ گزر گیا لیکن برطانیہ اور امریکہ کی عدالتوں اور میڈیا نے اُس جنگ کے حق میں دروغ بھرے اپنے رول پر آج تک کوئی شرمندگی محسوس نہ کی۔

سماج (یعنی اُس کی سیاست،معیشت اور کلچر)کے بارے میں بولنے والا، لکھنے والا، یا فلم بنانے والا کبھی بھی غیر جانبدار نہیں ہوتا۔ باہم متصادم و مخاصم طبقات میں بٹے ہوئے سماج میں حقائق بیانی، سچ بیانی، اور اصول بیانی کبھی بھی سوفیصد آبادی کے لیے نہیں ہوتے۔ وہ دانشور یا تو محکوم کلاسز کے لیے بول اور لکھ رہاہوگا، یا پھر حاکم طبقات کے لیے۔

چنانچہ”میں حقائق بیان کر رہا ہوں“ایک نامکمل فقرہ ہی رہے گا۔ ”میں سچ بولوں گا“ ہمیشہ ہی لنڈورا فقرہ ہوگا۔ خواہ بی بی سی، سی این این اور جیو ٹی وی میں کوئی ایسا کہے، یا پھر اداریہ اور مضمون لکھنے والا کوئی دانشور یہ بات کرے۔اگر کوئی بورژوا دانشور اپنی لاابالی میں، اور پرولتاری دانشور ترنگ میں آکر سینہ ٹھونک کر بولے کہ میں تو حقائق بیان کر رہا ہوں۔ تو سچی بات یہ ہے کہ وہ حقائق سو فیصدآبادی کے لیے نہیں ہیں، محض ایک طبقے کے لیے حقائق ہوتے ہیں۔ جبکہ دوسرے کے لیے تو تباہ کن جھوٹ۔

سماجی حقیقت ایک ہے: طبقاتی نظام۔ سب سے بڑا سچ ایک ہے: بھوک،ناخواندگی، بے روزگاری، غربت اور افلاس۔باقی حقیقتیں ضمنی ہیں، غیر اہم، طفیلی اور غیر بنیادی ہیں۔ چنانچہ جان لیجیے کہ سچ ریاضی میں، فزکس میں،اور کیمسٹری میں ہی عالمگیر اور آفاقی صورت میں موجود ہوتا ہے۔ مگر سماجی نظام میں زندگی کے اندر سچ طبقاتی ہوتا ہے، آفاقی نہیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے