گنوا چکا ہوں جو اس کا ملال رکھتا نہیں

جو میرے پاس سے اس کو سنبھال رکھتا نہیں

زوال کا میں کبھی اجتمال رکھتا نہیں

میں اپنی ذات میں کوئی کمال رکھتا نہیں

ہیں میرے دوست بہت کم عدوبہت سے ہیں

میں اپنے سُود وزیاں کا خیال رکھتا نہیں

زُباں پہ حرفِ طلب آکے لوٹ جاتا ہے

سوال رکھتاہوں دستِ سوال رکھتا نہیں

وہ کب ملا تھا بچھڑ کب گیا نہیں معلوم

کہ میں حسابِ فراق و وصال رکھتا نہیں

زباں کے ہوں کہ نظر کے کبھی نہیں ہوتے

میں زخم زخم ہوں اور اندمال رکھتا نہیں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے