بپھرے دریا کی روانی سے نکل آئے ہیں

ہم بنا بھیگے ہی پانی سے نکل آئے ہیں

شکر ہے اتنے سمجھدار ہوئے ہیں بچے

راجا رانی کی کہانی سے نکل آئے ہیں

آئینہ دیکھ کے حیران ہوا ہے کیا کیا

آنکھ جھپکی تو جوانی سے نکل آئے ہیں

کینہ رکھ کر تو  ملا کرتا تھا ہم سے اکثر

ہم تری چرب زبانی سے نکل آئے ہیں

سن  لے اے ہم کو تن آسان سمجھنے والے

ہم دبے پاؤ ں کہانی سے نکل آئے ہیں

ہم کہ ہجرت کے عذابوں سے گزرنے والے

آخرش نقل مکانی سے نکل آئے ہیں

آپکے نقش مٹانے کی سعی لاحاصل

آپ پھر میری کہانی سے نکل آئے ہیں

زندگی اب نئی الجھن میں نہ الجھا ہم کو

ہم تری شعلہ بیانی سے نکل آئے ہیں

کس طرح آئے یقیں اب تری باتوں پہ غزل

ہم تری شوخ بیانی سے نکل آئے ہیں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے