عطا شاد مرحوم کی یاد میں ایک نشست منعقد ہوئی تھی جس میں خواتین اور حضرات کی بڑی تعداد شامل تھی۔ تمام لوگ عطاشاد کی یادوں، باتوں اور سب سے بڑھ کے اُن کی شاعری کی سحر میں سرشار تھے۔ بہت سے لوگوں نے اظہار خیال کیا۔ تمام عمر اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز رہنے کے باوجود اپنی قلندرانہ طبیعت کو زندہ رکھنے والے اس بہت بڑے شاعر کو یاد کرنے کے لیے ہونے والی اس تقریب کی صدارت ادیبوں کی ”صاحبی ورائٹی“ سے تعلق رکھنے والے ایک بہت ہی ”بڑے صاحب“ کر رہے تھے۔ عطاشاد کو یاد کرتے ہوئے کئی لوگوں نے انہیں عطا بھائی کہہ کر یاد کیا، جیسا کہ اُن کی زندگی میں بھی کرتے تھے۔ ویسے بھی شاعروں، ادیبوں میں ان کی تحریروں کے حوالے سے ایک انیست، اپنائیت اور محبت کا ایسا رشتہ قائم ہوجاتا ہے۔ کہ جسے صرف سُچے لکھنے والے ہی محسوس کرسکتے ہیں۔ مثلاً احمد فراز کو فراز بھائی کہنا، ساحر لدھیانوی کو صرف ساحر کہہ کے یاد کرنا، محترم قرۃ العین حیدر کو عینی آپا، کشور نائید کو کشور آپا یا فہمیدہ ریاض کو فہمیدہ آپا کے نام سے یاد کرنا ایسا کرتے ہوئے کوئی زمانی یا مکانی بُعد، یا ادبی وسماجی مرتبہ حائل نہیں ہوتا اور کوئٹہ، نوشکی، پتوکی، یا دادوکا کوئی تو آموز لکھاری بڑی سہولت سے قرۃ العین حیدر کا ذکر عینی آپا کہہ کے کرتا ہے۔

بہر حال مذکورہ تقریب میں کرنا خدا کا ایسا ہوا کہ ”صاحبی وارئٹی“کے صاحبِ صدارتی خطبہ دینے لگے تواُن کی صاحبی رگ پھڑک اٹھی اور فرمانے لگے کہ آپ لوگ عطا شاد کا ذکر کرتے ہوئے عطا بھائی نہ کہا کریں کیوں کہ وہ ایک بڑے آفیسر تھے۔

اس پر مجھے ایک حکایت یا د آئی کہتے ہیں کہ پر وانوں کی ایک میٹنگ چل رہی تھی کہ ایک ڈینبو بھی وہاں آپہنچا اور کہا کہ میں بھی پروانہ ہوں اور میٹنگ میں شامل ہوگیا۔ اس پر بہت سے پروانے مشتعل ہوگئے اور اُسے نکل جانے کا کہا۔ جب بات زیادہ بڑھی تو ایک ذہن پروانے نے مشتعل پروانوں سے کہا کہ الجھو مت، شام ہونے دو، خود بخود فیصلہ ہوجائے گا۔

شام ہوئی تو اُس نے کچھ پروانوں اور اُس ڈیبنو سے کہا کہ ذرا جاکر دیکھو کہ بستی میں کوئی شمع جلی ہے یا کہ نہیں۔ یہ سن کر وہ سب اُڑ کر روانہ ہوگئے کافی دیر گزر گئی کوئی پروانہ واپس لوٹ کر نہیں آیا البتہ ڈینبو، ایک تفاخر کے ساتھ پھوں بھوں کرتا  واپس آیا اور کہا کہ میں دیکھ آیا ہوں۔ بستی میں بہت سی شمعیں جل رہی ہیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے